سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ قدیم انسان نی اینڈرتھال اور جدید انسانوں کی افزائشِ نسل کے متعلق عام خیال سے کہیں پہلے شروع ہو گئی تھی۔
نی اینڈرتھال انسان کے ڈی این اے میں انسانی ڈی این اے کے آثار ملنے سے پتہ چلتا ہے کہ اب ناپید ہو جانے والے اپنے ان رشتہ داروں سے ہماری جینز کی آمیزش کا عمل ایک لاکھ سال قبل شروع ہو گیا تھا۔
ماضی میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ان دو انسانی نسلوں نے سب سے پہلے ایک دوسرے کا سامنا اسی وقت کیا تھا جب 60 ہزار سال قبل جب جدید انسانوں نے افریقہ چھوڑا تھا۔
مذکورہ تحقیق برطانوی سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہوئی ہے۔
جرمنی کے ارتقائی بشریات (وہ علم جس میں نسلی خصوصیات اور سماجی ارتقاسےبحث کی جاتی ہے) کے لیے کام کرنے والے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر سرگے کاسٹیلانو کہتے ہیں: ’یہ جدید انسان اور نی اینڈرتھال کی تاریخ سمجھنے کے لیے اہم پیش رفت ہے۔‘
ایک نی اینڈرتھال خاتون کی سائیبیریا کے التائی پہاڑوں کے ایک دُوردراز غار سے ملنے والی پُرانی باقیات ہمارے آبا و اجداد کے جنسی معمولاتِ زندگی کے متعلق اِن انکشافات کا ذریعہ ہیں۔
جینیاتی تجزیے سے معلوم ہوا کہ انسانی ڈی این اے کے حصے اس خاتون کے جینوم کے اندر موجود ہیں، جس سے ایک لاکھ سال قبل ان دو مختلف نسلوں کے آپس میں اختلاط کا انکشاف ہوا۔
اس سے قبل کی گئی تحقیق سے یہ معلوم ہوا تھا کہ انسانوں ہمارے اِن رشتہ داروں کے ساتھ افزائشِ نسل اس وقت شروع کی تھی جب 60 ہزار سال قبل انھوں نے افریقہ سے ہجرت کر کے دنیا بھر میں پھیلنا شروع کیا تھا۔
جب انھوں نے براعظم افریقہ چھوڑ دیا تبھی ان کا واسطہ نی اینڈرتھال سے پڑا جو یورپ اور ایشیا میں رہتے تھے۔
ان دو نسلوں کے جنسی اختلاط کے اس عمل کی وجہ سے آج کے دور کے انسانوں میں نی اینڈرتھال کے جینز پائے جاتے ہیں۔ حالیہ تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ڈی این اے کے یہ حصے مدافعاتی نظام سے لے کر بیماریوں کے خلاف کام کرنے والی قوت کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ جینز کا بہاؤ صرف ایک سمت میں نہیں تھا بلکہ انسانوں سے جینز نی اینڈرتھال تک بھی منتقل ہوئے تھے۔
تحقیق سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ملاپ ہزاروں سال پہلے سے ہو رہا تھا۔
لیکن اب تک یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ اِن جینز کے نی اینڈرتھال پر کیا اثرات مرتب ہوئے تھے۔
ڈاکٹر کیسٹیلینو کے مطابق ’اس کی اہمیت فی الوقت غیر واضح ہے۔‘
تاہم اِن نتائج نے انسانی نقل مکانی کی تاریخ پر مزید روشنی ڈالی ہے۔
اگر ابتدائی انسان ایک لاکھ سال قبل نی اینڈرتھال سے جنسی تعلقات قائم کرتے تھے تو یقیناً یہ کام افریقہ سے باہر ہوا ہو گا کیوں کہ نی اینڈرتھال کے آثار افریقہ میں نہیں پائے گئے۔
اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں انسانی ابتدا سے متعلق ہونے والی تحقیق کے رہنما پروفیسر کِرس سٹرنگر کہتے ہیں: ’میرا خیال ہے کہ نظری اعتبار سے اس ابتدائی افزائشِ نسل کا مقام جنوبی ایشیا میں کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ تب تک کہ ہم یہ بالکل نہیں جان سکتے کہ نی اینڈرتھال اور ابتدائی جدید انسان اُس وقت عرب اور چین کے درمیانی خطوں میں کس حد تک پھیلے ہوئے تھے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت ہم یہ بات نہیں جانتے کہ ایک گروہ کا دوسرے گروہ سے ملاپ اور خواتین کے چوری چھپے میل ملاپ (جو بن مانس اور کچھ جدید جانوروں کا شکار کرنے والے انسانوں میں ہوتا ہے) کا یہ عمل اور لاوارث یا یتیم بچوں کو گود لینے سے شراکت داروں کا امن پسندانہ تبادلہ کس طرح ممکن ہو سکا۔
’جس کے بعد آخر کار جینیات کواس قابل ہوجانا چاہیے کہ دیگر سمتوں میں ڈی این اے کی منتقلی بنیادی طور پر مردوں کے ذریعے ہوئی، خواتین کے ذریعے ہوئی یا یہ تناسب برابر تھا۔
لیکن ایسا ممکن کرنے کے لیے مزید اعداد وشمار کی ضرورت ہو گی۔