بامقصدزندگی

’’مسافربس کراچی سے اپنی منزل مانسہرہ کی طرف رواں دواں تھی کہ اچانک روڈ کے درمیان ایک بورڈ سامنے آجاتاہے ’’ترقیاتی کام کیوجہ سے سڑک ٹریفک کےلئے بند ہے۔‘‘ اب ڈرائیورکے پاس دوصورتیں ہیں ،،،

پہلی یہ کہ وہیں سے یوٹرن لیکر بس کو واپس کراچی شہرلے آئے جہاں سے روانہ ہوئی تھی ،،، یہ ایک ناکام اور اناڑی ڈرائیور کی علامت ہے کیونکہ اس صورت میں کئی نقصانات ہونگے ،
پہلانقصان بس کے مالک کو مسافروں کا کرایہ واپس دینا ہوگا،
دوسرا نقصان ہزاروں لیٹر ڈیزل ضائع کرنے کے بعدبھی بس مالک کو کچھ حاصل نہ ہوا،
تیسرا نقصان اپنا اور مسافروںکا وقت ضائع کیا،
اور چوتھا نقصان سخت مزاج مسافروں کی کڑوی کسیلی بھی سننے کو ملے گی اور بس مالک الگ ناراض ہوگا۔

دوسری صورت یہ ہے کہ جہاں سے سڑک بند ہے ڈرائیور گاڑی کو مین روڈ سے کچیے میں اتار لیتا ہے اور پتھریلی زمین تو کبھی کچی پکی پکڈنڈیوں سے گزرتے ہوئے کافی سفر کرنے کے بعدجہاں مین روڈ صحیح ہوتی ہے دوبارہ بس اسی سڑک پر لاکر اپنی منزل کی جانب رواں رہے ، اگرچہ تھوڑا وقت ضائع ہوگا لیکن مسافروں اور بس مالک سمیت کسی کو بھی برا نہیں لگے گا۔

یہ ایک کامیاب اور منجھے ہوئے ڈرائیور کی نشانی ہے جس نے اپنی منزل کو مقصد بنالیا تھا اور اپنے مقصد کو پانے کےلئے راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو عبور کرنے کاتہیہ کیا ہوا تھا ،بصورت دیگر کئی نقصات اس کے منتظر تھے جو پہلے والے ڈرائیور کو پیش آئے ‘‘۔

یہ پیرگراف ہندوستان کے نامور فلسفی مولانامولاناوحیدالدین خان کی کتاب ’’اللہ اکبر‘‘سے ماخوذہے ،پیرگراف من وعن تو یاد نہیں لیکن اس کا قریب تر مفہوم کچھ یوں ہی تھا۔

بامقصد انسان کی زندگی بھی کچھ یوںہی ہوتی ہے کہ جو اپنی راہ میں آنے والی ہرمشکل کاسامناکرتاہے،وہ کبھی ہمت نہیں ہارتااورمقصدکے حصول کےلئے ہروہ کوشش کرتاہے جواس کے دائرہ اختیارمیںہو ۔ جاپانی زبان کی ایک کہاوت کا مفہوم ہے کہ ’’ ا گر انسان کے دونوں ہاتھ پیر سلامت ہوں اور دماغی طور مفلوج نہ ہو تو وہ دنیا کا ہر کام کرسکتا ہے ‘‘۔ اس کہاوت کے ذریعے جاپانی بڑھے بوڑھوں کا مقصد اپنی نوجوان نسل کی حوصلہ افزائی کرنا اور یہ بتانا ہے کہ اگرہمت ہو کوئی بھی کام انسان کے دسترس سے باہر نہیں ہوتا ہے۔

تاریخ کامطالعہ کریں تومیں دیکھتاہوں کہ دنیامیں جتنے بھی عظیم لوگ گزرے ہیں، چاہئے ان کاتعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے رہاہے وہ بھی ہماری ہی طرح کے انسان تھے ،جن کے دوہاتھ دوپیر اورایک کھوپڑی ہی تھی ،وہ بھی کھاتے پیتے اورچلتےپھرتے تھے ،لیکن معلوم نہیں کیاسوچ کرانہوں نے کھوپڑی میں موجود دماغ سے ، محنت کرکے ایساکام لیاوہ قدرت کے بچھائے ہوئے اسٹیج پراپناکرداراداکرنے بعدوہ تو دنیاسے رخصت ہوگئے لیکن ان کی وجہ شناخت نے تاریخ کی کتابوں میں ان کوہمیشہ کےلئے امرکردیاہے ۔حالانکہ ان میں سےکوئی بھی شکم مادرسےہی عظیم پیدانہیں ہواتھا ،اسی طرح وہ بھی صرف اپنی آپ تک محدودنہ تھے ،ان کے بھی بہن بھائی رہے ،اردگردانسانی معاشرہ رہا،اور وہ ان سب کے ساتھ جیتے رہے ۔لیکن وہ اپنے مقصدسے اتنے سنجیدہ رہے کہ زندگی کوبھی چیزان کومقصدسے پیچھے نہ ہٹاسکی ۔

جونوجوان بھی یہ چاہتاہو کہ وہ کامیاب زندگی گزارے اسے چاہئے کہ اپنے لئے اہداف ’’ٹارگٹ‘‘ متعین کرے ،اور پھر ان اہداف کے حصول کے لئے سچی لگن سے سچی محنت کرے ، جس کے دوران یقینابہت ساری اور طرح طرح کی رکاوٹیں آئینگی ،مختلف قسم کے لوگ بھی آپ کی راہ میں روڑے آٹکائینگے۔ جس انسان کاجتنابڑامقصداورٹارگٹ ہوگااتنی ہی مشکلات پیش آئیگی ۔ لیکن آگر آپ کی لگن سچی اور مقصد کے حصول کےلئے کچھ بھی کرنے عزم ہو تو کوئی بھی فرد یا شئی آپ کو ٹارگٹ کے حصول سے مانع نہیں ہوسکتا۔

اچھے برے میں تمیز تو بچپن سے ہی والدین مرحومین نے سیکھا دی تھی اوران کی دی ہوئی تربیت پر فخر محسوس کرتاہوں لیکن حقیقتا ہوش 2001 میں اس وقت سنبھالا جب ’’اللہ اکبر‘‘مطالعہ کی ،کیونکہ کتاب کے مذکورہ بالا پیرگراف نے میری زندگی کا رخ یکسر تبدیل کردیا تھا اور میری سوچ کو نئی راہ دیدی تھی،جسے میں ’’ہوش سنبھالنے ‘‘سے تعبیر کرتا ہوں۔یہ کتاب پڑھنے کے بعد سے ہی اس کا یہ پیرگراف میرے دماغ سے چپک سا گیا ہے ،جس نے میری زندگی کا رخ اور میری سوچ کو نئی راہ دیدی تھی، اگرچہ میں نے اپنے اہداف کوحاصل کرنے کےلئے کوئی ٹائم فریم طے نہیں کیا لیکن پھر بھی میں اپنے اہداف کو جلد سے جلد حاصل کرنا چاہتا ہوں،اور ہر سال میرے جنم دن کے موقع پر میں اداس اور میرا دل پریشان رہتا ہے کیونکہ تاحال میں ٹارگٹ کے حصول میں ناکام ہوں ، لیکن پھربھی جنم دن پر مبارکباد اور نیک خواہشات کا اظہار کرنے والے دوستوں کاتہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں ۔

اوردوستو !میراآپ سے وعدہ ہے کہ زندگی کے کسی بھی موڑپرجب بھی میںاپناٹارگٹ حاصل کرلوں،آپ سب کوبھی اپنی میری خوشیوںمیں ضرورشریک کرونگاکیونکہ میراایمان ہے کہ خوشیاں بانٹنے سے کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہے ۔

(یہ تحریر اپنے جنم دن پردوستوسے اظہارتشکرپرتھی)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے