پاکستان واقعی اشرفیہ کا ملک ہے۔ ایک زمانہ تھا پاکستان میں ٹیکس کی چھوٹ 400 ارب کے بگ بھگ تھی۔ جس سے تین سال میں موجودہ حکومت نے 66 فی صد تک ختم کردیا ہے۔ ابھی بھی اس کا ایک تھائی حصہ باقی ہے اور باقی رہے گا کیونکہ جنہوں نے ٹیکس لگانے اور عوام سے وصول کرانا ہے ان پر ٹیکس کیسے لگ سکتا ہے۔
اب ٹیکس اصلاحات کمیشن نے ٹیکسوں کے حصول میں بہتری کے لیے اپنی تجاویز ایف بی آر کو بجھوائی ہیں جس میں کمیشن نے سفارش کی ہے کہ صدر مملکت ، وزیر اعظم، پاک فوج کے جرنیلوں اور ججز ، وفاقی وزرا اور پاکستان سے باہر خدمامت انجام دینے والے افسران کو دی گئی ٹیکس مراعات ختم کی جائیں۔ ایسا پہلی بار نہیں، جب بھی پاکستان میں ٹیکس اصلاحات کی بات ہوتی ہے اور عالمی امدادی ادارے قرض فراہم کرتے ہیں تو ٹیکس اصلاحات کو ہی اولین قرار دیتے ہیں۔ لیکن پالیسی ساز ان تجاویز کو ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے سے نکال بھی دیتے ہیں۔
سال 2209 میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی مشیر خزانہ اور معروف بینکر شوکت ترین نے بھی اپنے دور میں 500 ارب سے زائد کے ٹیکس گنجائش کا باتوں باتوں میں ذکر کیا تھا اور اس پر میڈیا بھی بڑا وایلالہ ہوا۔۔ پھر اسی دوران ایک نئی اصطلاح ریفام جی ایس ٹی بھی آئی۔ جسے آر جی ایس ٹی کہا گیا۔ اس پر سیمینار ہوئے عالمی امدادی اداروں نے معیشت کو دستاویز بنانے اور اشرفی سے ٹیکس وصول کرنے کےلیے اس متعاراف کرنے کی تجاویز دیں۔۔ موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار، ان کی ٹیم چیخ چیخ کر اس کی مخالفت قرار کرتے ہیں اور موجودہ حکومتی اراکین کا سرینا میں ہونے والے سیمینار میں تاریخی جملہ ’’ آر جی ایس ٹی‘‘ غریب سے منہ سے نوالہ چھیننے کے مترادف ہے۔۔
تاریخ کے اوراق ، میڈیا کی آرکائیو اور ویب سائٹ کا حصہ ہے۔ اس میں ایک بڑے مزے کی بات ہے جو مجھے آج بھی یاد ہے۔ چونکہ ہم صحافی سب کے لیے مساوی ٹیکس کے حامی ہے اس لیے ہم سب پر ٹیکس لگانے کی خبروں پر خاص توجہ دیتے ہیں۔ اس ریفارم جی ایس ٹی میں بتایا گیا تھا کہ تمام چیزوں پر جی ایس ٹی ہوگا اور کوئی خام مال، دودھ، ادویہ ٹیکس سے بچ نہیں سکے گی ساتھ ساتھ کوئی شخص بھی ٹیکس سے بچ نہیں سکا ہے۔ جنہیں ٹیکس کی چھوٹ دینا ہوگی انہیں ٹیکس ری فنڈ کردیا جائے گا تاہم ایک فی صد ٹیکس ہر کسی پر ، ہرشے پر لگے گا تاکہ معیشت دستاویز ہوسکے۔
اس میں خوشی کی خبر یہ تھی کہ اس وقت ملک میں سیلز ٹیکس کی شرح 15فی صد تھی جسے تین سال میں مرحلہ وار ایک فیصد کم کرکے 15 فی صد پر لانا تھا۔ اب دیکھیں قوم کے ساتھ ہوا کیا کہ ، 66 فی صد ٹیکس کی چھوٹ، جو کہ عوام سے وابستہ تھیں وہ ختم ہوگئیں اور جی ایس ٹی ، کم بخت جسے 12 فی صد پر آنا تھا کہ 17 فی صد پر ہے اور ڈیزل پر تو 90 فی صد سے بھی زیادہ ہے۔ اس ماضی کا حوالہ دینا اس لیے ضروری ہے کہ جنہیں ہم پالیسی ساز بناتے ہیں وہ معیشت کو بہتر کرنے کے نام پر کیا کیا گل کھلاتے ہیں۔ اب ٹیکس اصلاحات کمیشن کی سفارشات تیار ہیں ۔
مقدس گائے صدر مملکت ، وزیر اعظم، معزز وفاقی اور صوبائی وزیر، گورنرز ، اعلی عدالتوں کے ججز اور جرنیلوں کے لیے ٹیکس چھوٹ ختم کرنےکی تجویز ہے۔ جو بجٹ کے وقت کہیں فائلوں میں دب جائے گی اور 100 ارب سے زائد کا ٹیکس حاصل ہونے کا خواب بکھر رہے گا۔ ٹیکس مساوی ہو سب کے لیے ، سب برابر ہیں، شریف اور غریب ٹیکس میں ایک ہیں، نہیں ہوگا۔ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ۔ ہوگا نہیں۔۔۔۔