حالیہ دو برسوں میں دیگر مہاجرین کے ساتھ ساتھ پاکستان کے علیحد گی پسند بلوچوں کی بھی ایک بڑی تعداد یورپ پہنچی ہیں۔ انہیں پہلے سے موجود بلوچ یورپ میں منظم ہونے میں مدد فراہم کر رہے ہیں ۔ ان بلوچوں نے اب اسرائیل سے بھی مدد طلب کی ہے۔
بلوچستان کے علیحدگی پسند رہنما اور بلوچ ریپبلکن پارٹی کے رہنما براہمداغ بگٹی یورپی ملک سوئٹزرلینڈ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، جہاں بیٹھ کر وہ مختلف یورپی ملکوں میں اپنی تنظیم کو منظم کر رہے ہیں ۔
حال ہیں میں بلوچ ریپبلکن پارٹی کی جرمن شاخ نے بھی جرمنی کے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے ہیں اور یہ مظاہرے بالکل اسی طرز کے ہیں، جسے یورپ میں رہنے والے علیحدگی پسند کرد ایک عرصے سے ترکی کے خلاف کرتے آ رہے ہیں۔
گزشتہ برس چودہ مارچ کو جرمنی کی بلوچ ریپبلکن پارٹی نے جرمنی کے شہر کولون میں کردستان اسرائیل فرینڈ شپ ایسوسی ایشن (کے آئی ایف اے) رہنماؤں سے ملاقات کی، جس میں دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھانے کا اعلان کیا۔
اس ملاقات میں جرمنی کی بلوچ ریپبلکن پارٹی کے صدر اشرف شیرجان، نائب صدر نصراللہ بلوچ اور جنرل سیکریٹری جواد محمد شامل تھے۔ کردستان اسرائیل فرینڈ شپ ایسوسی ایشن ایک عرصے سے یورپ میں سرگرم ہے اور انہیں مختلف ’نامعلوم مخیر حضرات‘ فنڈز فراہم کرتے ہیں۔
گزشتہ ماہ علیحدگی پسند بلوچوں نے جرمنی کے مختلف بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے ہیں، جس پر جرمنی میں موجود پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ علیحدگی پسند بلوچوں نے پاکستان مخالف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جبکہ پاکستان کے خلاف نعرے بھی لگائے گئے۔
بلوچوں کی ایک ٹیم نے حال ہی میں فرینکفرٹ میں اسرائیل کے 67ویں قومی دن کی تقریبات میں بھی شرکت کی۔ اس موقع پر جرمنی میں بلوچ ریپبلکن پارٹی کے صدر اشرف شیرجان کا کہنا تھا، ’’میں صرف اپنے شہید لیڈر نواب اکبر خان بگٹی اور خیر بخش مری کی آئیڈیالوجی اپنائے ہوئے ہوں۔ ہماری جو بھی مدد کرے گا، ہم اسے خوش آمدید کہیں گے۔‘‘
اسرائیل کی مدد کے حوالے سے شیرجان کا کہنا تھا،
’’براہمداغ بگٹی نے ہمیں زیادہ سے زیادہ فرینڈ بنانے کا کہہ رکھا ہے، چاہے ان کا کوئی بھی مذہب ہو۔‘‘
اس موقع پر اشرف شیرجان کا کہنا تھا،
’’اسرائیل، بھارت، امریکہ اور یورپی یونین سے تعلقات ہمارے لیے اہم ہیں۔ میں نے اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو سے اپیل کی ہے کہ وہ اور اسرائیل کے عوام بلوچستان کی عوام کے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔‘‘
تاہم اس تمام اپیلوں کے باوجود فی الحال اسرائیلی تنظیموں نے کسی بھی بڑے فورم پر بلوچوں کے حق میں آواز نہیں اٹھائی ہے تاہم جرمنی کے بلوچوں کو چند نجی یہودیوں کی حمایت ضرور حاصل ہو رہی ہے۔