مقصد کی پہچان

میں کھیت میں کھڑا قریب سے گزرنے والی ٹرین کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا. سورج غروب ہونے کے قریب تھالیکن ٹرین اپنی پوری رفتار سے منزل کی جانب رواں دواں تھی،اسے لہلہاتے کھیتوں اور خوب صورت مناظر سے کوئ غرض نہیں تھی کیوں کہ اسے اپنی منزل پر پہنچناتھا. ٹرین توچند لمحوں میں گزر گئ لیکن میرے ذہن میں ایک سوچ چھوڑ گئ.

مجھے روزمرہ کی زندگی میں ٹرین کی اس طرز پر چلنے والے انسان صرف وہ نظر آئے جنہوں نے اپنی زندگی کو ایک مقصد کےلیے وقف کررکھا ہےاور ٹرین کی طرح اپنے مقصد کے حصول میں پوری قوت صرف کیے ہوئے ہوتے ہیں.ان کی زندگی میں نشیب وفراز آتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کے عزم و استقلال میں کوئ فرق نہیں آتا.دنیا کے خوش نما مناظران کو اپنی طرف کھینچتے ہیں لیکن وہ اپنے مقصد کے حصول کے پیش نظر ان کی طرف توجہ نہیں کرتے کیوں کہ بامقصد لوگوں کا طرز یہی ہوتا ہے.

جب آدمی اپنی زندگی کو کسی مقصد کے حصول کی خاطروقف کردیتا ہے تو اس کی وجہ سے بھت سےچلوگوں سےممتاز ہوجاتا ہے. جس آدمی کے اندر مقصدیت کا یہ مادہ آجائے تو اس کے اندر چھپی قوتیں ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں. اس کی زندگی ایک نئ زندگی بن جاتی ہے. ایک بامقصد آدمی کی زندگی اس بھٹکے ہوئے آدمی سے قدرے مختلف ہوتی ہے جو سمت متعین نہ ہونے کی وجہ سے کبھی ایک طرف تو کبھی دوسری طرف نکل جاتا ہے. بامقصد آدمی کے ذہن میں اس کا مقصد پیوست ہوچکا ہوتا ہےجو اس سے بارہ گھنٹوں کی بجائےچوبیس گھنٹے کام لیتا ہے. وہ اپنا وقت ضائع کیے بغیر منزل کی جانب بڑھتے رہنے کو پسند کرتا ہے پھر وہ دن بھی آجاتا ہے جب وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوجاتا ہے. اس کا مقصد کو پالینا معاشرے کی کامیابی ہوتی ہے کیوں کہ معاشرہ افراد پر مشتمل ہوتا ہے. ایک فرد کی کامیابی کو دیکھ کر دوسرے افراد تیار ہوتےہیں اور بالاخر آہستہ آہستہ بامقصد قوم تیار ہوتی ہے. یادرکھیے جب تک ہم ایک بامقصد قوم تیار کرنےمیں کامیاب نہ ہوجائیں اس میں اتنا شعور پیدا نہ کرلیں کہ وہ اختلافات کے باوجود بھی متحد رہے اس وقت تک کوئ ایسا قدم اٹھانا ممکن ہی نہیں جو بلندیوں تک پہنچا سکے.

آج ہمارے معاشرے میں بامقصد لوگوں کی قلت کا مسئلہ نہیں بلکہ ان کا وجود مسئلہ ہے جو نہ ہونے کےبرابر ہے. ہم نے مقصد کا شعور ہی کھودیا ہے. ہمارے سامنے نہ دنیا کی تعمیر کا کوئ مقصد ہے نہ آخرت کی فکر کا. اس سے بڑا خسارہ کیا ہوسکتا ہے؟ اگر یہ کمی ہمارے اندر کچھ عرصہ اور باقی رہی تو وقت چلاجائے گا اور پھر کف افسوس ملنے کا کوئ فائدہ نہیں ہوگا.

درد دل کےلیے اک آزمائش شرط ہے
ہوسکے تو پھر اٹھو اور پاس کرلو امتحان

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے