اوسط درجے کا معاشرہ

ہمارے ہاں چونکہ فکری مباحث زیادہ نہیں ہوتے، نظریاتی ایشوز پر گفتگو ہوتی ہے نہ اس حوالے سے کتابیں شائع ہو رہی ہیں، سب کچھ کرنٹ افیئرز کے گرد گھوم رہا ہے، اس لئے بہت سی عام اصطلاحات بھی قارئین کو اجنبی محسوس ہوتی ہیں۔ ان میں رائٹ ونگ، لیفٹ ونگ کی تراکیب بھی شامل ہیں، اسلامسٹ اور سیکولر جیسی معروف اصطلاحات بھی۔ کم علمی کا عالم اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ایم اے صحافت کے طلبہ تک ان اصطلاحات سے واقف نہیں۔ تکلیف دہ واقعہ ایک بار پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ تین چار سال پہلے لاہور کی ایک معروف سرکاری یونیورسٹی میں ایم اے ماس کمیونیکیشن کے طلبہ کو کالم رائٹنگ کے حوالے سے ایک سمسٹر پڑھانے کا اتفاق ہوا۔ ایک دن رائٹ، لیفٹ پالیٹکس اور نظریاتی تقسیم کا ذکر آیا، طلبہ کے سپاٹ چہرے دیکھ کر پوچھا، اس حوالے سے کیا جانتے ہو۔ ایک طالب علم کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اس سے مراد کیا ہے۔ انہی دنوں ایک نجی یونیورسٹی میں بھی اسی موضوع پر لیکچر دینے کا اتفاق ہوا، آزمانے کے لئے وہی سوال پوچھا۔ جواب یکساں تھا۔ ان اصطلاحات کا مطلب کوئی نہیں جانتا تھا۔ ایک بار تحریک انصاف اور اس کی سیاست کا ذکر ہوا کہ وہ ”سٹیٹس کو‘‘ توڑنے کے علمبردار ہیں۔ میں نے پوچھ لیا تو معلوم ہوا ہمارے شیروں کو ”سٹیٹس کو‘‘ کا بھی کوئی آئیڈیا نہیں۔ سوچتا رہا کہ کوئی عمران خان کو بتائے ”سٹیٹس کو‘‘ تو بعد میں توڑ نے کی کوشش کرے، پہلے نوجوانوں کو اس بارے میں سمجھائے تو سہی۔

اسی طرح سال ڈیڑھ پہلے ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ وہ سول سروس کا امتحان دینے کی تیاری کر رہا تھا۔ دوران گفتگو مہاتما گاندھی کا تذکرہ آیا تو معلوم ہوا کہ موصوف نے سرے سے یہ نام ہی نہیں سنا ہوا۔ جب پوچھا کہ آخر تمہارے ذہن میں کچھ تو اس لفظ سے تاثر بنتا ہو گا۔ جواب ملا، ہاں وہ غالباً راجیو گاندھی کے والد
تھے۔ سن کر بھونچکا رہ گیا۔

مقابلے کا امتحان دینے والے ایک اور نوجوان سے گفتگو میں انکشاف ہوا کہ انہوں نے گوربا چوف کا نام بھی نہیں سنا ہوا۔ یہ جہالت اپنی جگہ افسوسناک ہے ہی، مگر المیہ یہ ہے کہ اپنی اس کم علمی اور دولے شاہ کے چوہے جیسی دماغی صلاحیت کے ساتھ نوجوان اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں لے لیتے اور اس کی بنیاد پر اچھی ملازمتیں بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ بعض تو بڑے مزے سے ہمارا پریمیئر مقابلے کا امتحان سی ایس ایس بھی پاس کر لیتے ہیں۔ کہیں ان کے راستے میں بیریئر حائل نہیں ہوتا، کوئی انہیں روکتا نہیں، انہیں یہ احساس نہیں ہو پاتا کہ کتابیں پڑھنی چاہئیں یا مطالعہ بڑھانا اور اس میںگہرائی لانے کی ضرورت ہے۔ یہ نوجوان استاد بن جاتے ہیں۔ استاد کو کتاب سے کوئی دلچسپی نہیں تو وہ طلبہ میں کیسے اس کا جذبہ اور سوچ پیدا کرے گا؟

اس پورے تعلیمی نظام کو بہتر بنائے بغیر، کتاب کلچر کو فروغ دیے بغیر اساتذہ پر پی ایچ ڈی کرنے کے لئے دبائو ڈالا گیا، ان کی ترقی کے لئے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لازمی قرار دی گئی تو نتیجہ یہ نکلا کہ چوری کے مقالہ جات کے انبار لگ گئے۔ ایک یونیورسٹی پروفیسر کے بقول اگر پی ایچ ڈی کے تھیسس کی جانچ پڑتال شروع کی جائے تو بڑی تعداد کی ڈاکٹریٹ منسوخ کرنا پڑ جائے گی۔ دنیا بھر میں پی ایچ ڈی مقالوں کو شائع کیا جاتا اور مختلف لائبریریوں میں بھیجا جاتا ہے، جبکہ ہمارے بیشتر نئے پی ایچ ڈی کرنے والے اپنے تھیسس کو چھپاتے پھرتے ہیں، انہیں یونیورسٹی لائبریری کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتے کہ کہیں کوئی اصلیت نہ جا ن جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے پروفیسر صاحبان یہ چوری بھی خود کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ وہ پیسے دے کر مقالے لکھواتے ہیں۔ ایک صحافی دوست نے مجھے ذاتی طور پر بتایا کہ وہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ لے کر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالہ جات لکھ چکے ہیں۔ مڈل مین کو البتہ ڈھائی تین لاکھ تک مل جاتے ہیں۔

ابھی پچھلے ہفتے گریوی ٹیشنل ویوز کی تہلکہ خیز دریافت سامنے آئی تو معلوم ہوا کہ آئن سٹائن نے سو سال پہلے کشش ثقل کے حوالے سے سائنسی قوانین کو یکسر بدل کر رکھ دیا تھا، مگر ہمارے ہاں ابھی تک نیوٹن کے زمانے کی کشش ثقل کی تعریفیں ٹیکسٹ کتابوں میں چل رہی ہیں۔ طلبہ غریب کو کیا علم ہونا ہے، ہمارے سائنس ٹیچرز تک کو علم نہیں کہ آئن سٹائن نے کیا کچھ کر ڈالا اور ماڈرن فزکس کے تصورات کس قدر بدل چکے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک اور رویہ بڑا عام ہے کہ جب کبھی دنیا میں کوئی بڑاکام ہو، نئی ایجادات، پڑوسی ملک کی کوئی نمایاں کامیابی یا کچھ اور تو ہمارے بہت سے لوگوں پر جنون طاری ہو جاتا ہے۔ اصل خامیوں پر نظر کرنے اور اصلاح کی کوئی تجویز دینے کے بجائے اپنے سر میں خاک ڈال کر ماتم شروع کر دیتے ہیں۔ خود اپنے آپ ہی کو گالیاں دینے، کپڑے پھاڑنے اور کیچڑ منہ پر مل لینے سے آدمی مزید تماشا بنتا ہے۔ اس بار تو مزید ستم یہ ہوا کہ وہ لوگ جو مذہب بیزار اور خدا کے وجود ہی سے منکر ہیں، ان کا بس نہیں چلتا کہ اہل مذہب کے دماغوں کو کسی طرح لادینیت اور الحادکی طرف موڑ دیں۔ ان لوگوں نے سائنسی میدان میںہماری کمتری اور پسماندگی کی تمام تر ذمہ داری مذہب پر ڈال دی، چونکہ مذہب کی پابندیوں کی وجہ سے سائنسی طرز فکر پیدا نہیں ہو رہی، لوگوں کو سوال اٹھانے کی اجازت نہیں، اس لئے ہم پیچھے رہ گئے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

یہ بیانیہ اصل حقائق کے منافی ہے۔ ہمارے پیچھے رہ جانے کی واضح وجوہ ہیں۔ صرف سائنس ہی میں نہیں بلکہ ہر معاملے میں انحطاط نظر آ رہا ہے۔ زراعت کے حوالے سے ہم نے ریسرچ نہیں کی۔ نئی بیماریوں کا علاج ڈھونڈ سکے نہ ہی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کا طریقہ۔ حال یہ ہے کہ لاہور سے کراچی جانے والی نیشنل ہائی وے پر ہزاروں شیشم کے درخت بیماری سے سوکھ گئے ہیں، ان کا کوئی علاج نہیں ڈھونڈا جا سکا، ان کی جگہ نئے درخت بھی نہیں لگائے گئے۔ آم اور کینو جیسے ایکسپورٹ ہونے والے پھلوں کی فصلیں متاثر ہو رہی ہیں۔ ان کا علاج ڈھونڈنے سے کس مولوی نے روکا ہے؟ کھیلوں میں زوال کا ذمہ دار کون ہے؟ ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے، دنیا بھر میں چھائے ہوئے تھے، آج پاکستانی ہاکی ٹیم آخری نمبروں پر کہیں نظر آتی ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ سکواش میں جہانگیر خان، جان شیر خان کی کہانیاں پرانی ہو گئیں، اب ہم ٹاپ ٹین میں بھی نہیں۔

یہی سب کچھ ادب، موسیقی، فلم، ٹی وی کے حوالے سے نظر آتا ہے۔ کہیں، کسی جگہ غیرمعمولی اہلیت رکھنے والا شخص موجود ہے تو اس نے کچھ فرق ڈال دیا ورنہ ہمارا سسٹم تو ایوریج اور اس سے نیچے کی سطح کے لوگ پیدا کر رہا ہے۔ غیرمعمولی ٹیلنٹ رکھنے والوں کو ملکی سسٹم برداشت ہی نہیں کر پاتا، انہیں باہر جانا پڑ جاتا ہے۔ وجوہ جانی پہچانی ہیں۔ اقربا پروری کے باعث نااہل لوگ اہم عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں، اپنے عدم تحفظ کی وجہ سے وہ ٹیلنٹ کو اوپر نہیں آنے دیتے۔ ہم اچھا ورک کلچر پیدا ہی نہیں کر سکے۔ سائنسی ایجادات کے لئے زندگیاں وقف کرنا پڑتی ہیں، یہ نائن ٹو فائیو ملازمت سے نہیں ہو پاتی۔

عربی کے مشہور شاعر زہیر بن ابی سُلمیٰ کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اپنا عربی قصیدہ لکھ چکنے کے چار ماہ بعد تک کسی کو نہیں سناتا تھا اور خود ہی اس کی تراش خراش کرتا رہتا، اگلے چار ماہ وہ قریبی دوستوں کے حلقے میں سناتا اور ان کی آرا کے مطابق اپنی شاعری پر سوچ بچار کرتا، پھر آخری چار ماہ اپنے قبیلے میں سناتا اور عوامی فیڈ بیک کی روشنی میں کام کرتا۔ ایک سال بعد وہ قصیدے کو پبلک کرتا۔ ایک عرب نقاد نے اسی وجہ سے کہا تھا: ”زہیر شاعری کو گھلاتا ہے اور شاعری اسے گھلاتی ہے‘‘۔ زہیر بن ابی سُلمیٰ کا کلام زندہ رہنے کی ایک وجہ اس کی یہی محنت تھی۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم ہو یا امراض کی تشخیص، سائنسی ایجادات ہوں یا ادب و تنقید، کھیل ہوں یا زراعت یا کوئی اور شعبہ… ہر جگہ تن آسانی،کاہلی، کمتر پر قناعت کر لینا اور اپنے کام کے ساتھ انصاف نہ کرنے کی عادت نظر آتی ہے۔ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اوسط درجے اور اس سے نچلے درجے کے لوگوں کے راستے میںکوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ہمارا اوسط درجے کا معاشرہ انہیں اپنی پوری صلاحیتیں استعمال کرنے اور اپنی کوالٹی بہتر کرنے کے لئے مجبور ہی نہیںکرتا۔ اس کے بغیر ہی یہ لوگ ترقی کی منازل طے کرتے چلے جاتے ہیں۔ جب ایسا ماحول قائم ہو جائے تو پھر ہر شعبے کا معیار رفتہ رفتہ گرتا چلا جاتا ہے۔ ہم آج کے پاکستان میں یہی سب کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اسے ہر حال میں بدلنا ہو گا، ورنہ زوال کی کوئی انتہا نہیں ہوتی، بس کیٹیگریز بدلتی جاتی ہیں۔
(بشکریہ روزنامہ دنیا)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے