جنگل اداس ہے

مارگلہ اور مرغزار سے میرا دو عشروں کا تعلق ہے۔

’جنگل ہٹ ‘ کے پہلو سے جو پگڈنڈی اندر جنگل میں جاتی ہے ،اس پر تھوڑا آگے جائیں تو ایک خوبصورت سفید عمارت نظر آتی ہے۔یہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا کویت ہاسٹل ہے۔اس کی راہداریوں میں میرے کئی سال بکھرے پڑے ہیں۔یہ میری ڈریم لینڈ ہوا کرتی تھی۔اے حمید کی تحریروں میں برما کے جنگل اور رنگون کی جن بارشوں کے تذکرے مجھے گدگدایا کرتے تھے وہ سب میں نے اس جنگل میں مجسم پایا۔بادلوں کی کتنی نئی قسموں کا مجھے تب پتا چلا جب اس جنگل سے دوستی ہوئی۔درختوں سے سرگوشیاں کرتی ہوا،ساون میں بھیگے راستے،شاخوں سے ٹپ ٹپ بہتا پانی اور صبح دم جنگل کی طرف کھلنے والی کھڑکی سے آتی کوئل کی مدھ بھری آواز۔دیہات سے آئے لڑکے کو اس جنگل نے آسودہ کر دیا۔

یونیورسٹی سے ہاسٹل کے راستے پر بندروں کا قبضہ ہوتا تھا۔شروع شروع میں ان سے فاصلہ رکھا مگر بعد میں دوستی ہو گئی۔ایک وقت آیا یہ اتنی مظبوط ہو گئی کہ میں کیلے لے کرہاسٹل سے شمال کی سمت تلہاڑ وادی کو جانے والی پگڈنڈی پر چند قدم چل کر انہیں آواز دیتا تو یہ بھاگے چلے آتے۔یہ پگڈنڈی اصل میں ایک سرحد تھی اور اس کے آس پاس دو گروہ آباد تھے۔ہر گروہ کی تعداد سینکڑوں میں تھی اور اگر ایک گروہ کا بندر دوسرے کی حدود میں آ جاتا تو پھر سارا علاقہ میدان جنگ بن جاتا۔صرف ایک بندر کو اس معاملے میں استثناء تھا۔وہ جب چاہتا ،جہاں چاہتا آ جا سکتا تھا۔کسی کی جر ات نہیں تھی اس کو روک سکتا۔اس کا نام ’چودھری‘ تھا۔جب ہم بندروں کو چیزیں کھلا رہے ہوتے اور ایک اودھم مچا ہوتا تھا ، چودھری اس وقت بھی اپنے ’مرتبے‘ کا خیال رکھتا۔دونوں ہاتھ پیچھے باندھ کر ٹہلتا ہوا بالکل میرے سامنے آ کر کھڑا ہو جاتااور میرے ہاتھ سے چیز لیتا۔کبھی اس کے سامنے زمین پر کچھ پھینکا جاتا تو یہ اسے اٹھانے سے انکار کر دیتا۔اس کا یہ رکھ رکھاؤ ہمیں اچھا لگتا تھا لیکن جب اس نے سارے جنگل کی بندریاؤں کو اپنی کنیز سمجھنا شروع کر دیا اور موقع بے موقع یہ حق استعمال کرنے لگا تو افتخار سید کو ،جو اب کنگ خالد یونیورسٹی کمیونٹی کالج میں شعبہ انگریزی کا سربراہ ہے،یہ بہت برا لگا۔اس نے میس ملازمین سے کہ کر ایک پراٹھا بنوایا جس میں خوب مرچیں ڈلوائیں اور ’چودھری‘ کو پکڑا دیا۔’چودھری‘ نے پہلا ہی لقمہ لیا تو اس کا برا حال ہو گیا۔اس کو سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ کیا کرے۔پریشانی میں اس نے مرچوں والے ہاتھ سے آنکھوں میں کھجلی کر لی۔اس کے بعد جو ہوا اس کا تعلق صرف دیکھنے سے تھا ۔چودھری نے یہ بات دل پر لے لی اور ایک عرصہ ہم سے ناراض رہا۔ہم میں سے کوئی اسے بلاتا تو وہ منہ دوسری طرف پھیر لیتا۔وقتی طور پرالبتہ جنگل میں عزتیں ضرورمحفو ظ ہو چکی تھیں۔

مارگلہ سے اپنائیت بڑھی تو مر غزار تک پہنچ گئی۔ان دنوں چیتے کی ایک جوڑی نے دو بچے دیے تھے۔ہم لوگ یہ بچے دیکھنے مرغزار گئے اور دل ہار آئے۔یہ بھلے وقتوں کی بات ہے جب مرغزار میں ایک شیر بھی ہوتا تھا ۔سارا دن یہ خاموش پڑا رہتا ۔جب شام کے سائے وادی میں اترنے لگتے یہ دھاڑنا شروع کر دیتا۔معلوم نہیں کیا وجہ تھی کوئل صرف صبح کو بولتی تھی اور شیر صرف شام میں دھاڑتا تھا۔مارگلہ کی خاموش وادی میں شیر دھاڑتا تو ایک سحر سا طاری ہو جاتا۔آپ کے چاروں جانب پہاڑ ہیں،آپ پرانے دامنِ کوہ کے کسی گوشے میں بیٹھے ہیں،شام اتر رہی ہے،ایسا سناٹا کہ اپنی سانسیں سنائی دیں،اور ایسے میں نیچے مرغزار سے شیر کی دھاڑ سنائی دے۔ورڈزورتھ کے طالب علم کو اور کیا چاہیے۔چنانچہ کھلے موسموں میں جب پروفیسر ایس۔ایم۔اے رؤوف شیکسپئر کی کلاس لے رہے ہوتے تھے میں یہاں جنگل کی کسی پگڈنڈی پر بیٹھا ہوتا تھا۔نتیجہ یہ نکلا کہ لیکچر شارٹ ہو گئے۔جس روز شارٹ لیکچرز کا نوٹیفیکیشن ہونا تھا اس سے دو روز قبل کلاس میں بریک ہوئی ،پروفیسر صاحب رجسٹر وہیں چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے گئے اور افتخارنے میری حاضریاں پوری کر دیں۔دو روز بعد رؤوف صاحب کی آنکھوں میں جو حیرت تھی وہ مجھے آج تک یاد ہے۔وہ کبھی رجسٹر دیکھتے اور کبھی عینک کے پیچھے سے مجھے گھورتے۔لیکن میں مطمئن بیٹھا تھا۔اب میرے لیکچر شارٹ نہیں تھے۔

مرغزار میں میری ’سہیلی‘ سے دوستی ہو گئی۔یہ بہت پیاری ہتھنی تھی۔میں اس کے لئے کیلے لے جاتااور اسے کھلاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں اپنے لیے اپنائیت محسوس کر تا۔جب میں پیار سے اس کی سونڈ پر ہاتھ پھیرتا تو اس کی آنکھیں بولتی تھیں۔ایک روز میں اپنے ساتھ مہررضا کو لے گیا۔مہر صاحب بہت پیار کرنے والے دوست تھے۔لیکن ہتھنی ان کو دیکھ کر ناراض ہو گئی اور غصے میں آوازیں نکالنا شروع ہو گئی۔اس کا یہ رویہ ہماری سمجھ سے باہر تھا۔ہمارے جج دوست احمد شہزاد گوندل نے تعبیر پیش کی کہ مہر صاحب ہتھنی کہ رہی ہے اتنا صحتمند ہونا صرف ہاتھیوں کا استحقاق ہے ۔

اس ’موٹو ایلی فینٹ‘ سے مجھے ہی نہیں میری بیٹی عروہ کو بھی پیار ہو گیا۔عروہ بلی اور خرگوش تک سے ڈر جاتی ہے مگر اس پیارے سے ’مو ٹو ایلی فنٹ‘ سے کبھی نہیں ڈری۔اس کی سونڈ میں پیسے پکڑاتی،پیار سے اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرتی حتی کہ ایک روز اس پر سوار ہو کر سیر بھی کر لی۔رات کو سونے سے پہلے اس کی ضد ہوتی ہے کہ اسے ’موٹو ایلی فنٹ‘ کی کہانی سنائی جائے۔وہ جاننا چاہتی ہے کہ آج اس کے ’مو ٹو ایلی فنٹ‘ نے کیا کیا؟ کیا کھایا؟کس سے لڑائی کی؟

اتوار کی شام خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ ’سہیلی‘ بیمار ہے۔عروہ نے بھی ٹی وی پر خبر سن لی۔اس کی ہنسی روٹھ گئی اور اسے چپ سی لگ گئی۔میں نے اسے پیار کیا کہ تمہارا ’موٹو ایلی فنٹ‘ بالکل ٹھیک ہے ہم کل اسے ملنے جائیں گے۔سوموار کو ہم مرغزار پہنچے تو انتظامیہ نے مجھے کہا میڈیا نے خواہ مخواہ بات کا بتنگڑ بنا دیا ہے’سہیلی‘ بالکل ٹھیک ہے۔لیکن سب ٹھیک نہ تھا۔انہوں نے سہیلی کے احاطہ کو شامیانہ لگا کر بند کیا ہوا تھا اور کسی کو آگے نہیں جانے دے رہے تھے۔لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے کہ اگر انتظامیہ غفلت کا مظاہرہ نہ کرتی تو ’سہیلی‘ بیمار نہ پڑتی۔یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ اندر کے کسی آدمی نے زہر میں بھگوئے کسی تیز دھار آلے کے ساتھ اسے زخمی کیا ہے۔معلوم نہیں تحقیقات ہوں گی کہ نہیں۔

میں نے عروہ سے کہا بیٹا ’موٹو ایلی فنٹ‘ کو ڈرپ لگی ہے،آج وہ سو رہی ہے ،ہم پھر کسی روز آئیں گے۔۔۔۔پھر پتا چلا ہمارا پیارا ’موٹو ایلی فنٹ‘ ہمیشہ کی نیند سو گیا ہے۔مرغزار انتظامیہ کی باہمی لڑائیوں نے ’سہیلی‘ کو مار دیا۔عروہ مسلسل پوچھ رہی ہے بابا ’مو ٹو‘ ٹھیک ہو گیا ہے یا نہیں۔میں آج بھی سوچ رہا ہوں اسے کیا جواب دوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے