پرچم میں دو رنگ

اردو کی دوسری کتاب میں’ ہمارا پرچم’ کے نام سے ایک کہانی ہوا کرتی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ سبز رنگ مسلم اکثریت کا ظاہر کرتا ہے اور سفید رنگ اقلیتوں کو، اور پاکستان میں اکشریت کے ساتھ اقلیتوں کے حقوق کی بھی حفاظت کی جائے گی۔دونوں کے ساتھ برابری کا سلوک ہو گا۔ اور آج جب پاکستان کو بنے "صرف” اڑسٹھواں سال ہے اور سندھ اسمبلی نے آج تاریخ ساز ہندو شادی بل پاس بھی کروا لیا۔ خوش قسمتی کہیۓ کہ بدقسمتی سندھ اسمبلی کو اتنے سالوں میں ایسا بل پیش کرنے والی پہلی اسمبلی کا اعزاز بھی حاصل ہو گیا۔گویا اس مسئلے پر چھ دہائیوں سے کسی نے آواز ہی نہیں اٹھائی۔ اب جہاں سبز اکشریت کے بنیادی حقوق یہ عالم ہو کہ ابھی قانون ساز ثابت نہ کر پائیں اس سبز اکژریت میں مسلم کتنے ہیں اور کافر کتنے، جہاں سبز اکژریت کا فیصلہ نہ ہو رہا ہو اس میں کل کتنے مسلک ہیں ان کی ایک عید اور جمعہ کا ایک وقت مقرر نہ ہو رہا ہو،ابھی یہ فیصلہ باقی ہو کہ یک مشت تین طلاقوں پہ طلاق واقع ہوگئی کہ ایک طلاق سمجھی جائے۔

جہاں گستاخِ رسالت کا قانون اتنا غیر واضح اور مبہم ہے کہ کسی پہ کبھی بھی گستاخی کا الزام لگا کر ہلاک کر دیا جائے اور مجرم کو سزا دینے میں بھی سالوں لگ جایئں، ، جہآں قانون اتنا کمزور ہو کہ با اثر مجرم زبردستی مدعی کو دیت دے دے۔ جہاں مقتول کی ماں عدالت میں کھڑے ہو کر کہے کہ میں کمزور اور قاتل مضبوط ہے باقی اولاد کی حفاظت کے لیے مقدمے سے پیچھے ہٹ جائے۔

جہاں سبز اکثریت کا ایک ٹھیکےدار اپنے شاگردوں کو ریاست کے خلاف کھڑا کر کے سینکڑوں "شہید” کروا دے۔ پھر اسی قاتل کو معاف کر دے، اور قانون ساز اس کے خطبات کو روکنے کے لیے موبائل سروس بند کر دینے جیسے ” سخت ” اقدامات ہی کر پایئں۔

جہاں قانون ساز ابھی تک شناختی کارڈ میں مرد اور عورت کے ساتھ مخنث کا آپشن نہیں دے پائے پاکستانی خواجہ سرا اپنے وجود کو تسلیم کروانے کے لیے سراپا احتجاج ہوں۔ وہاں سفید اقلیت کی ہندو برادری کی شادی کو قانونی حیثت دینے کا بل تو قابل تحسین ہے۔ وہ بھی اس صوبے کی اسمبلی جہاں ہجرت کر کے آئے سبز اکژریت؛ اڑسٹھ سالوں سے یہاں بسے، اعلی عہدوں پہ فائز لیکن پھر بھی خود کو مہاجر کہلانے والے ہر دور میں اسمبلی پہ حاوی پھر بھی نا انصافی کا رونارونے والے ہوں۔ جہاں کے وزیر اعلیٰ اتنے بے خبر کہ اپنے ایک شہر کی آبادی کی درست تعداد معلوم نہیں، جو کچی شراب نوش کر کے ہلاک ہونے والوں کو "شہید” کا رتبہ دیتے ہیں، جہاں جبری مسلمان کیے جانے اور غیر محفوظ ہونے کے ڈر سے اقلیتیں نقل مکانی پہ مجبور ہوں وہاں ایک اقلیتی قوم کے لیے آزادی کے اڑسٹھویں سال میں بل پاس ہونا کوئی دیر تو نہیں ، ہمیں اچھا پہلو دیکھنا چاہیے ( تنگ نظر اور جھگڑالو لوگ اس پہ عملدرآمد کا سوال اٹھا کہ نقص امن کے مرتکب ہونے کی کوشش کریں گے) لیکن اچھے کام کی تعریف تو ہونی چاہیے۔

پرچم کے دو رنگ دونوں کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جائے گا۔ اگر سفید رنگ والی اقلیت کو لگتا ہے انھیں نظر انداز کیا جا رہا ہے تو وہ مایوس نا ہوں سبز رنگ کی اکثریت والے کونسے ان کے لاڈلے ہیں۔ اچھے کام کی تعریف کریں بس۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے