چھوٹی چھوٹی نیکیاں

ملک صاحب ہمارے دوست ہیں، سینئر اخبار نویس ہیں، تین عشروں سے زیادہ اسی وادی پُرخار میں گزار چکے۔ میرے ساتھ ان کا ایک خاص قسم کا مشفقانہ تعلق رہا۔ سولہ سترہ برس پہلے کی وہ شام آج بھی یاد ہے، جب یہ اخبار نویس لاہور کے ایک اخبار کے نیوز روم میں داخل ہوا۔ جھجکتا ہوا، پریشانی سے نیوز روم کے ہنگامہ خیز ماحول کو دیکھتا ہوا، سوچتا کہ جانے یہاں کیا گزرے گی؟ اس سے پیشتر ماہانہ اردو ڈائجسٹ میں وقت گزرا تھا، جس کا ماحول یکسر مختلف تھا۔ ایک طویل کوریڈور‘ جس کے دائیں بائیں کئی کمرے تھے۔ ان میں سے ایک میں ہمارے بھی کئی برس گزرے۔ مسودے پڑھے جاتے، ان کی ایڈیٹنگ، پھر پروف ریڈنگ اور کاپی فائنل کرانے کا مرحلہ۔ دفتر میں مگر کامل سکون رہتا۔ اخبار کا نیوز روم اور وہ بھی کسی بڑے قومی اخبار کا نیوز روم‘ جہاں دو ڈھائی درجن افراد بیک وقت موجود ہوں، اس کا ڈائجسٹ یا جرائد کے دفاتر سے موازنہ ہی نہیں۔ وہ شام آج بھی یاد ہے جب ملک صاحب نے ”گواچی گاں“ کی طرح اِدھر ادھر پھرتے نوجوان اخبار نویس کو آواز د ے کر بلایا، اپنے قریب والی نشست پیش کی اور نیوز ایڈیٹر سے کہہ کر دو تین خبریں سامنے رکھ دیں کہ انہیں بناﺅ، کوئی مسئلہ آئے تو پوچھ لینا۔
وقت اتنی تیز رفتاری سے بیت جائے گا، سوچا ہی نہیں تھا۔ تین سال وہاں کام کیا، پھر تقدیر ایک اور اخبار لے گئی، جہاں میگزین کا انچارج بن گیا اور پھر کالم بھی شائع ہونا شروع ہو گیا۔ وہ کام جس کا سکول کے زمانے سے خواب دیکھتے اور جس کے لئے ہم اپنے گھر سے پانچ سو کلومیٹر دور لاہور شہر میں وارد ہوئے تھے۔ اگست 2012ءمیں روزنامہ دنیا سے وابستہ ہوا اور زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا، اللہ اس میں آسانیاں عطا فرمائے۔ آمین۔ ملک صاحب کا تذکرہ ہوا تو یہ سب خیالات تیزی سے ذہن میں گھوم گئے۔ ملک صاحب برسوں موبائل سے گریزاں رہے۔ کہنا تھا کہ اس کی ضرورت نہیں۔ سب دوست یار کہتے رہتے۔ آخر موبائل لینا پڑا، پھر اس کا ایک مصرف بھی ڈھونڈ نکالا۔ ان کے نمبر سے روزانہ مجھے اور میرے جیسے کئی دوستوں کو دن میں تین چار بار ٹیکسٹ میسج موصول ہوتا ہے۔ لطائف، اشعار، اقوال زریں یا کبھی کبھار کوئی فکر انگیز بات۔ بہت لوگ ایسا کرتے ہیں۔ بعض تو ایسے کہ آدمی بعد میں اپنا موبائل نمبر تبدیل کرنے پر غور کرنے لگتا ہے۔ اصل بات لطائف، شاعری یا کوٹیشن بھیجنا نہیں بلکہ ان کا انتخاب ہے، جو ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ملک صاحب کا ذوق بہت ہی عمدہ ہے اور وہ ہمیشہ موقعہ محل، دستور زمانہ، حالات کے مطابق ہی میسج بھیجتے ہیں۔ جسے پڑھتے ہی کسی اور دوست سے شیئر کرنے کا جی چاہے۔

جمعرات کی دوپہرکالم لکھنے کا سوچ رہا تھا کہ ملک صاحب کا ٹیکسٹ میسج آیا، ”اردو میں لکھی دو سطریں تھیں، ”سبزی، فروٹ یا سامان ریڑھی والے یا فٹ پاتھ پر سامان بیچنے والے کسی ضعیف العمر سے خریدا کیجئے کیونکہ یہ امیر ہونے کے لئے نہیں، بلکہ اپنے اور اپنے بچوںکا پیٹ بھرنے کے لئے محنت مزدوری کر رہے ہیں“۔ بظاہر عام سی بات ہے، بے شمار مرتبہ پڑھی ہو گی، فرق صرف یہ تھا کہ اس بار ایک باعمل

بااصول شخص نے وہ بات کہی تھی، ایسا آدمی جو کسی اور کو نصیحت کرنے سے پہلے خود اس پر عمل کرنے کی عادت ڈالتا ہے۔ بے اختیار ذہن میں چند سال پہلے کا ایک واقعہ گھوم گیا۔ مغلپورہ چوک کے قریب بازار میں ایک معروف سٹور ہے۔ وہاں گھر کا سامان لینے اکثر جانا ہوتا تھا۔ راستے میں ایک دکان کے تھڑے پر ایک بابا جی نے چھولے چاول کا ٹھیہ سا لگایا ہوا تھا۔ صفائی کا معقول انتظام تھا۔ ایک دو بار رک کر کھایا تو حیران رہ گیا۔ میں نے لاہور جیسے شہر میں کم ہی اتنی لذت والے چنے چاول یا دال چاول کھائے ہوں گے۔ بڑے بڑے نام ہیں، جہاں کا پکوان صرف پھیکا بلکہ بہت ہی پھیکا۔ ایک دن صبح گھر سے جلدی نکل آیا، وقت تھا، کچھ دیر بابا جی کے پاس بیٹھ گیا، گپ شپ کرتا رہا۔ ان کی عمر ستر برس کے قریب ہو گی۔ معلوم ہوا کہ بیٹا کوئی نہیں، صرف بچیاں ہیں، شادیاں کر دیں، مگر ایک کی طلاق ہو گئی تو وہ بچوں سمیت گھر آ گئی۔ حالات ایسے تھے کہ بابا جی کے چاول چنوں ہی پر پورے گھر کا دار و مدار تھا۔ کہنے لگے کہ اتوار کو تو بازار بند ہوتے ہیں، چھٹی ہوتی ہی ہے، کسی اور روز اگر ہڑتال وغیرہ ہو جائے تو گھر میں کھانے کو روٹی نہیں ہو پاتی۔ پھر بتانے لگے کہ ایک اور بڑا مسئلہ ہے کہ بازار میں بیٹھا ہوں، گاہک مستقل قسم کے ہیں، ادھار بھی کر لیتے ہیں، سختی نہیں کر سکتا، نوبت یہ آ جاتی ہے کہ مال (گھی، مسالے، چنے وغیرہ) لینے کے پیسے نہیں ہوتے کہ کئی برسوں سے ایک دائرہ ہی چل رہا ہے، مال بیچا تو انہی پیسوں سے اور مال لے لیا۔ کئی بار کوشش کی کہ کچھ پیسے بچا لئے جائیں تاکہ وافر مقدار میں سامان گھر پڑا ہو، یہ روز کی جھنجھٹ سے جان چھوٹ جائے مگر ہر بار کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے، کبھی نواسہ بیمار، کبھی خود ، کبھی کچھ اور…. ان کی باتیں سن کر دل بڑا دکھا۔ ایک خیراتی ادارے سے بات کی۔ انہوں نے کچھ رقم انہیں دلا دی۔ اس کے بعد دو چار بار وہاں سے گزرا۔ ہر بار بابا جی کو ممنون پایا۔ دو ڈھائی سال پہلے ان کا انتقال ہو گیا، مگر آخری دنوں تک اپنے ہاتھ سے محنت کر کے ہی کماتے رہے۔ ان کے پسماندگان کا بعد میں انتظام ہو گیا، خواتین ہنرمند تھیں، الیکٹرک سلائی مشین ایک جگہ سے مل گئی تو وہ بھی کام سے لگ گئیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بسا اوقات ہمیں یہ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ چند ہزار سے کسی کی زندگی کس قدر آسان ہو سکتی ہے۔ کسی اچھے ہوٹل میں دوستوں کا ایک ڈنر پر جتنا خرچ آئے، اس سے کسی خاندان کے پورے مہینے کی مشکل حل ہو جاتی ہے۔

ہمارے ایک بزرگ عزیز اس بات کا بڑا خیال رکھتے۔ ان کے ساتھ بازار جانا ہوتا تو یہ بات نوٹ کرتا کہ وہ سبزی یا پھل وغیرہ ہمیشہ کسی ضعیف العمر ریڑھی والے سے خریدا کرتے۔ اس کے ساتھ مول تول بھی نہ کرتے، منہ مانگی قیمت ادا کرتے اور بسا اوقات ضرورت سے زیادہ سامان خرید لیتے۔ ان دنوں سکول میں پڑھتا تھا، ایسا کرنے کی حکمت سمجھ نہیں سکا۔ ایک دن پوچھا کہ آپ نے اس ریڑھی والے سے سبزی لی ہے، حالانکہ اس سے زیادہ اچھی سبزی ساتھ والوں کے پاس رکھی تھی، پھر آلو، پیاز آپ نے اتنے زیادہ کیوں لے لئے، گھر والوں نے تو ایک کلو کا کہا تھا، آپ پانچ کلو لے رہے ہیں۔ اس پر انہوں نے مسکرا کر دیکھا اور ایک دو فقروں میں بات ختم کر دی کہ زیادہ لینے سے میرا کوئی نقصان نہیں ہو گا، مگر اس بابے کا فائدہ ہو جائے گا، دوسرے جوان اور محنتی لوگ ہیں، گھوم پھر کر سودا بیچ لیں گے، یہ بوڑھا آدمی اسی جگہ کھڑا رہنے پر مجبور ہے، اس کا خیال رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ کچھ عرصہ بعد ان سے ایک اور بات سیکھی۔ کہنے لگے کہ ہم لوگ مہنگے درزیوں سے اپنے من پسند کپڑے سلواتے ہیں، منہ مانگی قیمت ادا کرتے ہیں، یہی حال سٹائلش جوتوں، اچھے ہوٹلوں کے کھانوں اور دیگر پُرتعیش چیزوں کا ہے۔ ان سب جگہوں پر بغیر کوئی بات کہے بل ادا کر دیتے ہیں، مگر کسی ریڑھی والے سے سبزی، پھل لینا پڑے، بچوں کا کوئی کھلونا خریدنا پڑ جائے تو پانچ دس روپے تو کجا، روپیہ دو روپے کی رعایت بھی کراتے ہیں اور اس کے لئے کئی منٹوں تک بحث مباحثے میں الجھے رہتے ہیں، یار اس غریب کو منہ مانگا دے دو یا کچھ اضافی ہی دے دو۔

ایسا ہی ایک تجربہ چار پانچ سال پہلے ہوا۔ ایک دوست سے ملنے ان کے دفتر گئے۔ وہ اصرار کر کے ہمیں قریب واقع چائے خانے میں لے گئے۔ گرمیوں کے دن تھے۔ چائے کا جی نہیں چاہ رہا تھا۔ کولڈ ڈرنک پر اکتفا کیا۔ جب بل دینے لگے تو دوست نے دو بوتلوں کے جتنے پیسے بنتے تھے، خاموشی سے اتنے ہی بطور ٹپ دے دئیے۔ کہنے لگے کہ ہم پیشہ ور بھکاریوں کو پیسہ دیتے ہیں اور بھی بہت سی جگہوں پر فضول ضائع ہو جاتے ہیں، مگر یہ جو محنتی لڑکے ہوٹلوں وغیرہ پر کام کر رہے ہیں، ان کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی تنخواہیں کم ہیں، اگر ہم دس پندرہ روپے بھی مدد کر دیں گے تو ہمارا کچھ نہیں جائے گا، ان کے لئے مگر بہتر انتظام ہو جائے گا۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیںہیں، بظاہر معمولی اور کم اہم نظر آنے والی نیکیاں، انہیں اپنی عادت بنا لیجئے، کیا خبر کون سا عمل آدمی کو قدرت کے سامنے سرخرو کر دے، اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا سبب بن جائے۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے