امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الشریف نے فرمایا تھا کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نہیں۔ظلم ،انصاف اور انصاف ظلم کی ضد ہے۔جہاں انصاف نہ ہو وہاں ظلم و بربریت ڈیرے ڈال دیتی ہے ۔ انصاف کا نہ ہونا ہی ظلم کے ہونے کی علامت ہے ۔اور جہاں انصاف نہ ہو،انصاف کا نظام نہ ہو وہاں فیصلے عدالتوں میں نہیں بلکہ سڑکوں پر ہوتے ہیں۔ اور کچھ اسی طرح کے فیصلے ملک پاکستان میں بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
اسی طرح کا ایک فیصلہ ممتاز قادری نے بھی کیا۔اب وہ فیصلہ صحیح تھا یا غلط وہ تو ایک الگ بحث ہے۔توہین رسالت قانون کا اطلاق اور اس کے دیگر معاملات سے لے کر ممتاز قادری کی پھانسی تک کے اس سلسلے نے جس نظام پر سب سے زیادہ سوالات اٹھائے وہ عدلیہ ہے۔اس دوران اٹھنے والے بہت سے سوالات تشنہ تھے اور شاید تشنہ ہی رہیں گے ۔کونکہ ہماری عدالتیں مقدس گائے کی اصطلاح کا سہارا لے کر شاید ان سوالوں کے جواب نہیں دینا چاہیں گی۔
یہ بات ایک حقیقت ہے توہین رسالت کے بابت سخت سے سخت قانون کا ہونا بہت ضروری ہے تا کہ معاشرہ کسی بھی قسم کے فساد کا شکار نہ ہو ۔مگر اس قانون کے غلط استعمال کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے ؟ہمارے معاشرے میں جہاں ذاتی مفاد کے لیے قرآن کی جھوٹی قسم کھا کر قرآن کی توہین کی جا سکتی ہے وہاں اپنے مذموم مقاصد کو پورا کر نے کے لیے کسی غیر مسلم پر توہین رسالت کی جھوٹی تہمت لگانا نا ممکن نہیں۔ماضی میں ایسے بہت سے واقعات رپورٹ بھی ہو چکے ہیں۔ان حالات میں توہین رسالت قانون کے غلط اطلاق کو روکناکیا ہمارے عدالتی نظام کی ذمہ داری نہیں۔
4فروری 2011 ء کو دن دیہاڑے وفاقی دارلحکومت میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر کو اسی کا محافظ دوران ڈیوٹی قتل کر دیتا ہے۔ممتاز قادری سے غازی ممتاز قادری بن جاتا ہے۔وہ مقتول پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ مقتول نے بلاواسطہ توہین رسالت نہیں کی تھی ،جہاں تک مجھے علم ہے صرف قانون پر انگلی اٹھائی تھی ۔ سوال یہ ہے کہ یہ بات بات پر ازخود نوٹس لینے والی عدلیہ اس وقت کہاں تھی ؟اور اگر ہمارا نظام عدالت اس قدر قابل اعتماد ہوتا توممتاز قادری قانون کو ہاتھ میں لے کر اس معاملے کا فیصلہ سڑک پر کیوں کرتا؟اس کا عدالت کی طرف رجوع نہ کرنا اور جذبات سے مغلوب ہو کرخود ہی قاضی بن جانا اس بات کی دلیل ہے کہ عام آدمی کا ہمارے کھوکھلے نظام انصاف سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔
بات آگے بڑھتی ہے ممتاز قادری قید ہوتا ہے اور کیس عدالت میں چلتا ہے اور پھر مختصر ترین نوٹس پر ایسے انسان کو سزائے موت دینے کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے جو کروڑں لوگوں کی نظر میں ایک ہیرو کا مقام حاصل کر چکا ہے۔سوال یہ نہیں ہے کہ ممتاز قادری کو پھانسی کیوں دی گئی ۔ قانونی طور پر یہ سزا سو فیصد درست ہے ۔مگر جہاں اس فیصلے کو قانون کی عینک لگا کر دیکھا جا رہا ہے ،وہاں اس کیس کے بہت سے سوالیہ پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ماضی قریب میں 27جنوری 2011ء کو ریمنڈ ڈیوس نامی امریکی شہری لاہور میں 2 پاکستانی شہریوں کو قتل کرتا ہے ،گرفتار ہوتا ہے،عدالت میں کیس چلتا ہے ،فرد جرم عائد ہوتی ہے مگر یہ قاتل باعزت طور پر امریکہ لوٹ جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ دیت ادا کر دی گئی تھی ۔معاملہ جو بھی تھا اگر امریکی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے،دیت کی آڑ میں کروڑوں لوگوں کے جذبات کو مجروح کر کے ایک امریکی کو چھوڑا جا سکتا ہے توکیا ایک بار پھر کروڑوں لوگوں کے جذبات کو مجروح کر کے ممتاز قادری کو پھانسی دینا ضروری تھا؟یہاں ریمنڈڈیوس کیس کی طرح دیت کے قانون کا سہارہ کیوں نہیں لیا گیا؟صرف اس لیے کہ وہاں مقتول دو غریب آدمی اور یہاں مقتول ایک گورنر تھا یا اس لئیے کہ وہاں قاتل ایک امریکی تھا اور یہاں ایک غریب آدمی۔
کیا اس پھانسی کا طریقہ کا ربالکل قانونی تھا،کیا تمام قانونی ضابطوں کو مد نظر رکھا گیا؟کیا پھانسی دینے میں عجلت سے کام لینا ضروری تھا؟ ممتاز قادری تو ایک چہرہ تھا جن لوگوں نے ممتاز قادری کو اشتعال دلایا یا مرحوم سلمان تاثیرکے خلاف اشتعال کی فضاء قائم کی کیاان کااحتساب بھی کیا جائے گا؟یہ کچھ سوالات ہیں جن کا جواب بہت زیادہ ضروری ہے۔کیونکہ اگر ان سوالوں کے جواب نہ دیے گئے اور انصاف یونہی مفقود رہا تو خدا نخواستہ فیصلے یونہی سڑکو ں پر ہوتے رہیں گے۔