۔ ۔۔۔ شاہد آفریدی نے ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ کے بعد ریٹائر ہوجانے کا اپنا وہ ‘عزم’ منسوخ کردیا ہے کہ جسکا اظہار انہوں نے گزشتہ برس کیا تھا اور یوں اپنی کسی حد تک باعزت واپسی کے دروازے بی خود پہ بند کر لیئے ہیں ،،، اس پہ مجھے کسی چلبلے سیانے کا یہ قول یاد آیا کہ "بندے کو عزت تو اللہ دیتا ہے لیکن اپنی بےعزتی کا انتظام وہ خود ہی کرتا ہے” تو بس یہی بات شاہد آفریدی کے معاملے میں درست ہوتی نظر آرہی ہے ،،، انکے کیریئر کی گاڑی اب مسلسل ڈھلان کی طرف لڑھکتی جارہی ہے لیکن وہ اب بھی اس بات سے انکاری ہیں کہ ‘وہ دن ہوا ہوئے کہ جب پسینہ گلاب تھا” شہرت کی حرص اور دولت کی ہوس کے پھندے وہ مہلک شکنجے ہیں کہ سب سے پہلے عقل لاچار ہوجاتی ہے اور مت ماری جاتی ہے اور درحقیقت کسی بندے کی آزمائش کی آسمانی تدبیروں میں یہ دو بہت اہم ہیں ، افلاس و بیماری کا درجہ تو ان سے کمتر ہے – اس کیفیت میں ہوتا یہ ہے کہ بندہ خود کو عقل کل سمجھنے لگتا ہے اور عقل بیچاری کا انحصار تو خود ان حواسوں پہ ہے کہ جو کسی بھی وقت دھوکہ دے سکتے ہیں
شاہد آفریدی کے موضوع پہ مزید بات کرنے سے پہلے ایک نظر انکے کیریئر کے خلاصے بھی ڈالتے چلیں جس سے کہ یہ اندازہ بخوبی ہوجائے گا کہ ان سے سے زیادہ خوش قسمت کھلاڑی شاید روئے زمین پہ دوسرا کوئی اور نہیں کیونکہ انکے سارے کیریئر میں جس قدر پست کارکردگی کے اعداد و شمار موجود ہیں اسکے باوجود برسہا برس سے وہ جس طرح قومی ٹیم سے چپکے ہوئے چلے آرہے ہیں ، وہ کسی معجزے یا بہت بڑی سفارش کے ہی بل پہ ممکن ہے – صورتحال یہ ہے کہ انہوں نے 1999 سے 2015 تک پورے پانچ ورلڈ کپ کھیلے ہیں اور تیس میچوں میں شامل رہے ہیں لیکن ان میں انکی مجموعی بیٹنگ کارکردگی کا اوسط صرف 9 رنز فی میچ ہے جبکہ ٹی ٹوئینٹی میں یہ اوسط محض 17 رنز ہے اور بالنگ میں بھی 34 رنز فی وکٹ جیسی بدترین کارکردگی کے حامل ہیں ،،، ون ڈے کے طویل کیریئر میں میں تقریباً چار سو میچ (398) کھیل کے صرف دس پندرہ میچ جتواسکے ہیں اور اس میں سب سے زیادہ مرتبہ صفر کا عالمی ریکارڈ رکھتےہیں گویا اسکور بک میں ان کے انڈوں کا ڈھیر لگا ہے – موصوف بغیر وکٹ لیئے مسسل تین سو پچاس گیندیں کرانے کا بد ترین و شرمناک ریکارڈ بھی رکھتے ہیں …. فائنل اور سیمی فائنل میں سب سے زیادہ مرتبہ زیرو پر آوٹ ہونے کا ‘عالمی اعزاز’ بھی انہی کے پاس ہے …. گزشتہ کئی برس سے انکا یہ وطیرہ ہے کہ چھ سات میچوں کے بعد کسی ایک میچ میں تھوڑے سے رنز بنا کر اسی کے بل پہ مزید کئی میچوں کیلیئے بک ہونے میں کامیاب رہتے ہیں اور ایک میچ میں اچھی کارکردگی کے بعد کئی میچوں میں شکست کی وجہ بن جاتےہیں
تازہ ترین حقائق یہ ہیں کہ وہ بطور کپتان اور کھلاڑی سب سے زیادہ شکست کھانے والے پلیئرز کی رینکنگ میں دوسرے نمبر پہ آ چکے ہیں …ان کی قیادت میں پاکستان کی ٹی ٹوئینٹی ٹیم اس حد تک زوال کا شکار ہے کہ انکی قیادت میں ٹیم اٹھارہ مرتبہ ہار کی ذلت اٹھا چکی ہے لیکن وہ حقائق کا سامنا کرنے کو تیار نہیں جسکا مظاہرہ گزشتہ دنوں اس وقت دیکھنے میں آیا کہ جب لاہور میں ان سے ایک صحافی نے نیوزی لینڈ میں ٹی ٹوئینٹی مقابوں میں پاکستانی ٹیم کی بدترین شکستوں کے حوالے سے انکی قائدانہ صلاحیت پہ ایک سوال اٹھایا تھا تو انہوں نے اس پہ سخت بد زبانی کرکے سب کو حیران کردیا تھا اور پھر جب ردعمل میں میڈیا نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا تھا تو نجم سیٹھی کو انکی صفائیاں دینے کے لیئے آگے آنا پڑا تھا- موصوف کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی ایک پہچان دعوت و تبلیغ کے احسن کام سے وابستگی کو بھی بنالیا ہے اور تقدس و روحانیت کا چوغہ بھی اوڑھ لیا ہے لہٰذا اب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کسی بھی تنقید سے بالاتر ہیں
ان ساری باتوں کے باوجود لگتا یوں ہے کہ آفریدی اپنی ناکامیوں پہ غور کرنے اور حقیقت سمجھنے اور اسکی روشنی میں فیصلے کرنے کی صلاحیت سے بھی تہی دامن ہوچلے ہیں اور اب جبکہ گزشتہ برس انہیں انکے کسی سچے خیرخواہ کی جانب سے ایک صحیح مشورہ ملا تھا اور جسکی وجہ سے انہوں نے اس سالٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ کے بعد اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا تھا تو یہ یقینناً انکے لیئے آبرو کے ساتھ واپسی کا ایک بہتر آپشن تھا ۔۔۔ لیکن کرکٹ کے گلیمر کی اسیری سے یوں عزت کے ساتھ جان چھڑا پانا شاید انکے نصیب ہی میں نہیں ورنہ وہ وہی باوقار راہ اختیار کرتے جو جاوید میانداد، آصف اقبال ، مشتاق محمد ، ظہیر عباس اور عمران خان نے اپنائی اور جنہوں نے اپنے کھیل میں انحطاط آتے ہی باوقار واپسی کا فیصلہ کیا اور شائقین کرکٹ کے دلوں میں امر ہوگئے اور آج تک کرکٹ میں ایک بلندمقام حیثیت کے حامل ہیں –
ویسے بھی آدمی کو قول کا پکا ہونا ہی زیب دیتا ہے اور یہی اسکی شخصیت میں جازبیت کا بڑا پہلو ہوا کرتا ہے لیکن اپنے کہے سے پھر جانا جبکہ وہ ملک و قوم کے کسی کسی بڑے مفاد میں بھی نہ ہو ، یقینناً ساری شخصیت کو دھندلا دیتا ہے اور پھر ضروری بھی نہیں کہ دوبارہ باعزت واپسی کا موقع ملے یا نہ ملے کیونکہ دنیا میں بہت سے ایسے کھلاڑی بھی ایسے بھی ہیں کہ جنہیں خود ریٹائر ہونے کی توفیق نہ ہوئی تو پھر عوام نے انکی خراب کارکردگی پہ اتنا شور مچایا کہ انکے ملک کے سیلیکٹروں نے انہیں مزید سیلیکٹ کرنا ہی چھوڑ دیا اور یوں وہ ایک برے تاثر کے ساتھ لوگوں کے پردہء ذہن سے بھی اوجھل ہوگئے ،،، بہتر ہے کہ آفریدی یہ نوبت آنے نہ دیں اور اپنے چند اچھے میچوں کی شہرت کو ہماری خوشگوار یادوں کا حصہ بنادیں اور ریٹائر ہوکر کمینٹری وغیرہ کے ذریعے اس کھیل سے کسی نہ کسی طرح منسلک رہیں –