عشق، قانون، انصاف اور ممتاز قادری

سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر قتل کیس میں ممتاز قادری کی سزائے موت پر عملدرآمد ہونے کے بعد اس پر کئی طرح کی آرا کا اظہار کیا جا رہا ہے کوئی اس کی مذمت کر رہا ہے تو کوئی واہ واہ کے ڈونگرے برسا رہا ہے، کچھ ایسے بھی ہیں جن کی رائے کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کس جانب کھڑے ہیں۔ اس موقع پر میڈیا کا دوغلا پن یا پھرنام نہاد آزادی کا پردہ چاک ہو کر سب کچھ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ تاثیر قتل کیس میں ممتاز قادری کو پھانسی دئے جانے کا عمل کئی پہلوسے لائق تبصرہ ہے۔ پہلے پہلو کا تعلق عشق سے ہے، سلمان تاثیر اور ممتاز قادری دونوں کو اپنے اپنے نظریات سے عشق تھا اور وہ دونوں اسی عشق کا شکار بنے۔ سلمان تاثیر کو اپنے سیکولر نظریات سے عشق تھا اور اس عشق میں ڈوب کر وہ اپنے منصب کے تقاضوں کو فراموش کر کے انسداد توہین رسالت قانون کو ایک کالا قانون کہہ بیٹھے اور اپنے جنون میں یہ فراموش کر گئے کہ اس قانون پر امت مسلمہ میں اجماع ہے، اس قانون کو پاکستانی پارلیمان نے منظور کیا ہے اور اس سے ملتا جلتا یااسی طرح کا ایک قانون برطانیہ میں بھی موجود ہے جو لوگوں کو حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کی توہین سے منع کرتا ہے۔ سلمان تاثیر اپنےسیاسی نظریات کے جنون میں ڈوب کر یہ بھی بھول گئے کہ کسی ملزم کو گناہ گار یا بےگناہ قرار دینا کسی حاکم یا گورنر نہیں بلکہ عدالت کا کام ہے۔

ان کے اس طرح کے اقدامات و بیانات کو میڈیا نے خوب تشہر دے کر مذہبی طبقے کے احساسات و جذبات کو ہوا دی اورپھر ان جذبات و احساسات کو تحفظ ناموس رسالت اور عشق رسول کے نام پرکچھ بھی کر گزرجانے کے دعویدارمذہبی رہنماؤں کے بیانات نے مہمیزدی۔ اس سارے عمل کا نتیجہ وہی ہونا تھا جو ممتاز قادری کے اقدام کی صورت میں سامنے آیا۔ تحفظ ناموس رسالت کے نام پرعشق رسول کے نظریے پر کاربند ممتاز قادری کو یہ بات یاد نہ رہی کہ وہ قانون کا رکھوالا ہے، اس کا کام قانون کو ہاتھ میں لینا نہیں بلکہ قانون پر عمل کرنا اور کرانا ہے، وہ یہ بات بھی فراموش کر بیٹھا کہ وہ جس کی حفاظت پر مامور ہے، اس کی جان کی حفاظت کرنااس کا فرض ہے اور اس فریضے کی ادائیگی کے دوران اس کی جان لینا اپنے فرائض سے سنگین روگردانی اور جرم ہے۔ اسی جرم کی پاداش میں ممتاز قادری کو سزائے موت دے دی گئی، اور یوں سلمان تاثیر اور ممتاز قادری دونوں اپنے اپنے عشق کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے سرکاری مناصب اور قانونی فرائض سے روگردانی کے مرتکب ہوئے اور اپنے عشق کے ہاتھوں موت کو گلے لگا بیٹھے۔ کہتے ہیں کہ عشق اندھا ہوتا ہے اور انجام کی پروا نہیں کرتا، اور اگر کسی کو اپنے عشق کے سچا ہونے کا یقین ہو تو پھر تو وہ اپنے انجام کی بالکل بھی پروا نہیں کرتا اور کچھ لوگوں کے مطابق ایسے معاملے میں جاں کر پروا کرنی بھی نہیں چائیے۔

سلمان تاثیر اور ممتاز قادری دونوں کو اپنے اپنے عشق کے سچے پن پر یقین تھا وہ دونوں دو مختلف انتہاؤں پر تھے، اول سیکولر نظریات کا حامل تھا تو دوسرا مذہبی نظریات پر کاربند، ان دو انتہاؤں کے حامل نظریات کے حامیوں کے درمیان چپقلش جو اب باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کر چکی ہےایک عرصے سے جاری ہے اور ہمارے ملک اور معاشرے کے امن و سکون کوبرباد اور سماجی اقدار کو بری طرح پامال کر رہی ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ان دونوں انتہاؤں پر کاربند لوگ اپنے اپنے انتہاپسندانہ نظریات سے اپنے عشق و وابستگی کو خیرباد کہہ کراعتدال و میانہ روی کی راہ نہیں اپنالیتے۔

انتہا پنسدی کا خاتمہ کسی متضاد انتہاپسندی کواپنا کر یا فروغ دے کرہر گز نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے الٹا منفی ردعمل پیدا ہوتاہےاورمزید انتہاپنسدی اورشدت پسندی کو فروغ ملتا ہے۔ کسی بھی مہذب معاشرے کی ترقی و بقا کے لئے دوسروں کی جان و مال کا احترام اور حفاظت کرنا نہایت ضروری ہے مگراسی طرح یا شاید اس سے بھی زیادہ اہم اور ضروری چیز لوگوں کے جذبات و احساسات اور عقائد کا احترام کرنا ہے کیونکہ ہمارے جیسے معاشرے میں اکثر لوگ اپنی جان و مال سے زیادہ قیمتی اپنے مذہبی احساست اور عقائدکو رکھتے ہیں جس کے لئے وہ کچھ بھی قربان کرسکتےہیں۔ اس رجحان سے اختلاف توکیا جا سکتا ہے مگر اس حیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔

اس معاملے کا دوسرا پہلو قانونی ہے۔ قانون کے مطابق ہر مجرم کو اس کے جرم کے مطابق سزا ملنی چائیے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی بھی بنیاد پر قانون کو اپنے ہاتھ میں لے اور اگر کوئی ایسا کرے تو اس کو قانون کے مطابق سزا ملنی چائیے۔ قانون جیسا بھی ہو، اچھا ہو یا برا، کسی کو پسند ہو یا ناپسند، سب کو اس کا احترام کرنا چائیے، کسی کوبھی، بالخصوص اعلیٰ حکومتی عہدے پر براجمان کسی فرد کو، قطعی طور پر یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی بھی قانون کو کالا قانون قرار دے کر اس کا مذاق اڑائے ، کسی ملزم کی کھلم کھلا حمایت کرے یا پھر کوئی شخص کسی کو قصوروار سمجھ کر خود ہی سزا دینے کا فیصلہ کر لے۔ جو بھی قانون کے احترام کی بجائے اس کو اپنے ہاتھ میں لینے کے کوشش کرے یا قانون شکنی کرے اس کو سزا ضرور ملنی چائیے، ورنہ معاشروں میں لاقانونیت اور بدامنی عود کر آتی ہے۔ ممتاز قادری نے اپنے انجام سے بے پروا ہوکر جو قدم اٹھایا تھا اس کی پاکستانی قانون میں اجازت نہیں۔

پاکستانی ریاست بشمول عدلیہ، و انتظامیہ نے جو راستہ اختیار کیا وہ یقنی طور پر قانونی راستہ اور قانون کا تقاضہ ہے۔ جس سے روگردانی نہیں کی جا سکتی تھی، شاید اس عمل یا فیصلے کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے، ہماری قومی قیادت، سیاسی اشرافیہ اور بالادست ومقتدر طبقے کے لئے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ کسی اہم حکومتی شخصیت کی حفاظت پر مامورایک شخص کے ہاتھوں اس طرح کے قتل کوکسی بھی بہانے یا عذر پر معاف کردیا جاتا، اگر آج تحفظ ناموس رسالت کے نام پرممتاز قادری کو چھوڑ دیا جاتا تو پھر کسی دوسری بنیاد یا بہانے پر اہم سیاسی و حکومتی افراد کو قتل کئے جانے کی راہ کھل جاتی،اور پھرشاید موجودہ اورمستقبل کے تمام حکمرانوں کے لئے جان کی حفاطت ایک سنگین مسلہ بن جاتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف سمیت تمام اہم سیاسی جماعتوں ( ماسوائے مذہبی تنظیمات) کے رہنماؤں نے ممتاز قادری کو سزائے موت دیئے جانے کی حمایت کی ہے۔ اور یہی بات اس معاملے کے تیسرے اور آخری پہلو سے منسلک ہے اور یہ پہلو انصاف کا پہلو ہے۔

ممتاز قادری کو پھانسی دینا یقینی طور پر قانون و انصاف کا تقاضا تھا جو پورا کر دیا گیا مگر انصاف کے تقاضے کچھ اور بھی ہیں۔ انصاف کا تقاضا صرف یہی نہیں کہ حکمران طبقے میں سے کسی پر حملہ ہو یااس طبقے کا کوئی فرد قتل کر دیا جائے تو صرف انہی کے قاتلوں یا حملہ آوروں کو تختہ دار پر لٹکایا جائے، انصاف کاتقاضا ہے کہ اس ملک کے کروڑوں باسیوں میں سے جو بھی قتل ہو اس کے قاتل کو پھانسی دی جائے، پرویز مشرف یا سلمان تاثیر پر حملہ کرنے والوں کو تو سزا مل گئی اب انصاف کا تقاضا ہے کے اس ملک کے عام لوگوں کے قاتلوں کو بھی ان کے سیاسی و سماجی تعلق و رتبے سے قطع نظر تختہ دار پر لٹکایا جائے، جس طرح سلمان تاثیر قتل کیس اور مجرم کا انجام سرعت کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچا اسی طرح متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے عام افراد، سیکڑوں علماء کرام، وکلا، اساتذہ اور بے شمار دوسرے لوگوں کے قاتلوں اور معصوم بچوں اور خواتین کے خلاف گھناؤنے جرائم میں ملوث افراد کو بھی اسی جلدی اور سرعت کے ساتھ قرار واقعی سزا دی جائے۔

قانون و انصاف کا تقاضا ہے کہ قانون شکنی کرنے والے تمام افراد کو اان کے جرائم کی سزا دی جائے اوراس عمل میں یہ نہ دیکھا جائے کہ مجرم کون ہے، اس کا تعلق کس ادارے، تنظیم، علاقے یا مسلک سے ہے اوراس کی وابستگی و نظریات اور ماضی یا خدمات کیا ہیں۔ اگرایسا نہ ہوا تو لوگ غلط یا صحیح طور پر یہ سمجھنے لگیں گے کہ قانون و انصاف کا اطلاق صرف ملک کے کمزور طبقے پر ہوتا ہے۔ اور ملک کا بالاتر طبقہ قانون و انصاف سے بالا تر ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ قانون و انصاف کی سربنلدی کی بجائے اس کی شکست و ریخت کا پیش خیمہ ہو گا جو ملک و معاشرے کی بنیاد ہلا کر رکھ دے گا۔ اللہ نہ کرے کہ کبھی ایسا وقت آئے۔ سیاسی اشرافیہ کو چائیے کہ کسی بھی وجہ سے انصاف کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے اور تمام طبقات کو بلا کسی تمیز و تفریق یکساں انصاف فراہم کرے اورملک میں قانون کی بالادستی یقینی بنائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے