تم "چیمپئن "ہولیکن ۔ ۔ ۔

آج سے قریب پچاس برس قبل ایک آدمی نے ہالی وڈ میں ہیرو بننے کا خواب دیکھا. اس کی شکل وصورت کچھ خاص نہیں تھی اور نہ ہی اس کی ڈائیلاگ ڈیلیوری میں کوئی کمال تھا. ہالی وڈ کے اور پروڈکشن کمپنیوں کے چکر کاٹ کاٹ کر اس کے جوتے گھس گئے. اس شخص کے پاس تعلیم بھی کوئی خاص نہیں تھی اس لیئے معمولی سی ملازمت کر کے اپنا اور اپنی بیوی کا گزارہ کرنے کی کوشش کرتا. لیکن فلموں میں کام کے شوق کی دھن میں سارے پیسے وہاں لگ جاتے.حتی کہ اس نے ایک دن آڈیشن پر جانے کیلئے اپنی بیوی کا زیور بھی چرا کر بیچ دیا .

مفلسی سے تنگ آ کر ایک شراب بیچنے کے سٹور کے باہر اس نے اپنا پالتو کتا فروخت کیا. اس دن ڈیپریشن دور کرنے کو وہ باکسنگ کا مقابلہ دیکھنے چلا گیا. وہاں محمد علی کی باکسنگ فائٹ ہو رہی تھی. اسں مقابلے کو دیکھتے ہوئے اس کے ذہن میں ایک کہانی آئی. وہ واپس آیا اور گھر میں بیٹھ کر ایک کہانی کا سکرپٹ لکھنے بیٹھ گیا. تقریبا 21 گھنٹوں میں اس نے سکرپٹ لکھا اور پھر وہ سکرپٹ لے کر پروڈکشن کمپنیوں کے پاس چلا گیا. ایک کمپنی نے اس زمانے میں اسے تیس ہزار ڈالر کی پشکش کی کہ وہ سکرپٹ انہیں بیچ دے وہ اس پر فلم بنائیں گے لیکن اس کا ایک ہی اصرار تھا کہ فلم میں وہ ہیرو آئے گا. چنانچہ بات نہ بنی کچھ عرصے بعد پھر اس کمپنی سے اسے پیغام آیا کہ اس کا سکرپٹ پچاس ہزار ڈالر میں خریدنے کی پیشکش ہوئی.لیکن وہ اپنے مطالبے پر ڈٹا رہا کہ وہ اس فلم میں بطور ہیرو کام کرے گا.کمپنی والوں نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ اس کی شکل ہیرو کیلئے مناسب نہیں اس کے بولنے کا انداز اور لب و لہجہ کسی بھی طور ایک اداکار کے شایان شان نہیں لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہا.باآخر تنگ آ کر کچھ عرصے بعد کمپنی والوں نے محض دس ہزار ڈالرز کے عوض اس کا سکرپٹ خرید کر اسے فلم میں ہیرو کے کردار کی پیشکش کر دی.فلم مکمل ہوئی اور ریلیز ہوتے ہی نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے. بہترین اداکاری کا ایوارڈ بھی ہیرو کے حصے میں آیا. اس فلم کو ایوارڈز بھی ملے اور ملین ڈالرز کا بزنس بھی.ساتھ ساتھ اس فلم کو ہالی وڈ کی عظیم اور شاہکار فلموں میں سے ایک کے طور پر چن لیا گیا.

روکی نامی یہ فلم جو کہ باکسنگ کے بارے میں تھی سلویسٹر سٹالن کے کیریئر کی پہلی فلم تھی. اس فلم کی کامیابی کے بعد اس نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور ایک کے بعد ایک ہٹ فلمیں اور کردار ادا کرتا ہی چلا گیا.ریمبو کے نام سے بننے والی فلمیں اور ریمبو کا کردار آج بھی فلموں کے پرستاروں کے دل و دماغ پر نقش ہے.سلویسٹر آج بھی اپنی مفلسی اور ناکامی کے ایام کو یاد رکھتا ہے اور اس کا ماننا ہے کہ کامیابی اور ناکامی میں فرق صرف خواب کا ہوتا ہے. جو لوگ خواب دیکھتے ہیں اور انہیں پورا کرنے کیلئے حالات اور ناکامیوں سے لڑ جاتے ہیں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں.

سلویسٹر کا یہ بھی ماننا ہے کہ خواب ہوتے ہی سچ کر دینے کیلئے ہیں. غالبا یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے. ہم اکثرحالات و واقعات سے گھبرا کر اپنے ارادے اور ترجیحات تبدیل کرتے ہوئے کمپرومائزز کیئے جاتے ہیں اور اکثر اپنے اندر کے خواب کو قتل کر دیتے ہیں.زرا سوچیئے اگر سلویسٹر مشکلات کے سامنے ہار مان لیتا یا لوگوں کی باتوں کو سچ مان کر اداکاری کے خواب کا گلا گھونٹ دیتا تو آج وہ کوئی معمولی سی جاب کر رہا ہوتا. دنیا کسی روکی یا ریمبو کو جانتی بھی نہیں.

سابقہ امریکی صدر رچرڈ نکسن نے وائٹ ہاوس میں اپنی آخری تقریر میں بہت خوبصورت بات کہی تھی کہ بڑے یا کامیاب آدمی اور عام آدمی میں فرق صرف شکست کو برداشت کر کے دوبارہ سے جیت کیلئے کوشش کرنا ہوتا ہے.

اسی طرح سے والٹ ڈزنی کی ہی مثال لے لیجیئے. والٹ ڈزنی کو جہاں وہ ملازمت کرتا تھا یہ کہ کر نکال دیا گیا کہ وہ تخلیقی صلاحیتوں کا مالک نہیں ہے اور اس نے جواب میں دنیا کی سب سے بڑی فلم کمپنی بنا ڈالی جو تخلیقی آئیڈیاز میں آج بھی سب کے لیئے مشعل راہ ہے.

اسی طرح معاشرے اور قومیں بھی حالات کی بھٹی سے گزرنے اور ناکامیوں کا زہر پینے کے بعد ہی کامیابی کا امرت چکھنے پاتی ہیں. چائنہ کی مثال لے لیجئے. پچھلی صدی کے پہلے چار عشروں تک اس کو افیمچی قوم کہا جاتا تھا.آبادی کا بے بہا ہجوم اور بیروزگاری کی انتہا ایک منقسم اور سست معاشرہ. لیکن آج وہی معاشرہ اور قوم دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور ہے.

ہم لوگ اکثر اوقات اپنے وطن کے بارے میں مایوسی کی باتیں کرتے بھول جاتے ہیں کہ قدرت ہر قوم کو آزماتی بھی ہے اور پھر اسے آگے بڑھنے کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے. پچھلے کچھ عرصے میں وطن عزیز میں جو مثبت تبدیلیاں دکھائی دینا شروع ہوئی ہیں ان کو دیکھ کر ایک یقین سا ہو چلا ہے کہ ہم اب منزل کی جانب گامزن ہیں. آج سے پانچ برس ملک میں قبل لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے تھے معاشی طور پر ناکام ریاست ہر جانب دہشت اور بم دھماکے تھے. دنیا ہمیں ایک ناکام ریاست ڈیکلیئر کرنے والی تھی. لیکن آج لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے کم ہوئے ہیں.معیثت بہتری کی جانب گامزن ہے. دہشت گردی اب چند مقامات تک محدود ہو چکی ہے. وہ ادارے اور ممالک جو ہمیں ناکام ریاست قرار دینے پر مصر نظر آتے تھے اب ہمیں ایک بہتری کی جانب بڑھتا ہوا ملک قرار دیتے ہیں.

چائنا کی 46 بلین ڈالر کی انوسٹمنٹ ہماری اقتصادی ترقی کیلئے ایک گیم چینجر ہے. دوسری جانب ہم لوگوں کے اجتماعی شعور میں بھی اضافہ ہوا ہے. ریاست نے خود ساختہ بیانیہ کی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے اب محمد علی جناح کے وژن والا بیانیہ از سر نو تشکیل دینے کا آغاز کر دیا ہے. شدت پسندی کی تمام قسموں کی حوصلہ شکنی جاری ہے. یہ تمام مثبت اقدام ایک نئی صبح کا آغاز ہیں. یقینا منزل ابھی دور ہے لیکن بہرحال ایک درست سمت قدم اٹھ چکا ہے. اب ضرورت ہے یقین اور حوصلے کی اور خواب کو پورا کر دکھانے کی ہمت پر. وہ ہمت جو ایک ریستوران کے معمولی سے بیرے کو ریمبو بنا دیتی ہے جو ایک ناکارہ اور سست ترین قوم کو دنیا کی سپر پاور بنا کر دی گریٹ چائنہ کا خطاب دلوا دیتی ہے. زندگی میں انفرادی سطح ہو یا اجتماعی کامیابیاں اور ناکامیابیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں.بس ہمیں یقین رکھنا ہوتا ہے اپنے خواب پر اپنے عزم پر. خود پر یقین رکھنے والے افراد یا معاشرے کبھی بھی ہارتے نہیں بلکہ ہر چیلنج کو قبول کر کے وقتی ناکامیوں کو شکست دیتے ہوئے کامیابی حاصل کر ہی لیتے ہیں.کیونکہ وطن عزیز میں مایوسی پھیلانے والوں کی بہتات ہے چاہے وہ آپ کی نجی زندگی کی بات ہو یا پھر قومی زندگی کی.اس لیئے ان مایوسی پھیلانے والوں کی باتوں میں مت آئیے گا.

جب کبھی مایوسی کا شکار ہوں تو سلویسٹر یا والٹ ڈزنی کی مثال کو سامنے رکھیے گا اور نجی زندگی میں آگے بڑھتے رہیئے گا. جب کبھی کوئی وطن کے بارے میں مایوسی پھیلائے تو چین اور جاپان کی مثال سامنے رکھئے گا. مایوسی گناہ ہے جبکہ یقین کامل بھی ہے اور جیت کا نشان بھی. یقین کی طاقت سے کچھ بھی حاصل کرنا ناممکن نہیں ہوتا. ویسے بھی زندگی کی جنگ میں اپنے وجود کو تسلیم کرواتے ہوئے چھوٹی چھوٹی خوشیاں حاصل کرنے اور بانٹنے والا شخص ہی چیمپین کہلاتا ہے.اور دنیا کے دعووں کو غلط ثابت کر کے ترقی کی انتہا حاصل کرنے والی قوم بھی چیمپیئن کہلاتی ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے