سنگ مرمر اور حضرت جی

میں حضرت جی کی ہفتہ وار مجلس میں ایک عرصہ بعد چند علماء کرام دوستوں کی معیت میں حاضر ہوا تھا.
حضرت جی کا بس ایک ہی کمال ہے کہ وہ ہر میدان میں باکمال ہیں..
مجھے حضرت جی سے عقیدت، ارادت اور کسبِ فیض نہیں پیار کا رشتہ ہے.

ہم خدا سے لیکر اپنے نطفے اور بدن سے پیدا کئے ہوئے وجود تک کسی کے بس اس پہلو میں دلچسپی رکھتے ہیں جس کا کوئی نہ کوئی افادی تعلق ہماری ذات سے جڑا ہوا ہو.

مثلا ہم بہت سہولت کے ساتھ اللہ کریم سے شکوہ شروع کرلیتے ہیں. جب وہ ہماری حاجات ہمارے مطلوبہ تحدیدی وقت میں پورا نہیں کرتا. ہم یہ نہیں سوچتے کہ اللہ صرف اس وجہ سے اپنا وجود نہیں رکھتا کہ وہ میری چاہی ان چاہی ضرورتوں کو پورا کررہا ہے. اور یہ کہ آج اگر وہ ضرورتیں پوری نہ ہوئیں تو وہ اللہ نہ رہا.
ہم نہیں سوچتے وہ رب العالمین ہے. کہکشاؤں اور غیر متصور خلاؤں اور ان خلاؤں کو ان گنت اجسام سے پر کرنے والا رب.
وہ رب ہے حاسہ بصر کے ادراک سے باہر ایک ذرے میں ایک جہانِ تحیر آباد کرنے اور آباد رکھنے والا رب.

وہ رب ہے ایسا رب جو کھرب ہا کھرب تابع اور مطیع مخلوقات کی جھرمٹ میں ایک چیونٹی سے بے بس ہوجانے والے انسان کی اکھڑ، اکڑ اور انکار کو خندہ پیشانی سے بھلادینے والا رب،

وہ رب ہے اعصابی نظام جیسا پیچیدہ نظام بنانے والا رب، جو نظام برسہابرس چشمِ زدن میں لاکھوں پیغامات کی ترسیل اور وصولی کا غیر مدرک کام مسلسل سرانجام دیتا رہتا ہے

لیکن ہم یہ سب تب نہیں سوچتے جب رب سے ہماری غرض کا رشتہ ہماری نظر میں ڈگمگاتا ہے. تب ہم رب کو بس اس زاویہ سے دیکھتے ہیں کہ وہ بس ہماری ضرورت کی تکمیل کا ایک معبود ہے. اور ہماری ضرورت اس موجودہ لمحے میں پوری نہیں ہوئی.

ہم چاند کی مثال لیتے ہیں. چاند میرے لئے صرف اس وجہ سے اہم ہے کہ وہ مجھے شب کی تاریکی میں روشنی مہیا کرتا ہے. ایک پھول سے لیکن چاند کا رشتہ روشنی کا نہیں اس کیمیائی عمل کا ہے جو چاند کی کرنیں اس پھول پر مرتب کرتا ہے. سمندر سے چاند کا رابطہ ایک بالکل الگ نوعیت کا ہے. سمندر کا مدوجزر چاند کا مرہون منت ہے.

تو ہم سب…… میں، پھول اور سمندر چاند کو اپنے اپنے اغراض اور مقاصد سے یاد رکھتے ہیں اور جانتے ہیں. قطع نظر اس کے چاند خود اپنی ذات میں کتنے رقبے پر پھیلا سیارہ ہے. اور یہ کہ چاند کن مخلوقات کا مسکن تھا، ہے یا ہوگا.

مجھے اپنی اولاد سے محبت ہے. کیونکہ وہ میری فرمانبردار ہے. وہ میری ضروریات کا خیال رکھتی ہے. مجھے اپنے بچے سے اس رخ سے تعلق ہے. اور میں اس کو اسی غرض بھری نگہ سے دیکھتا، سوچتا اور برتتا ہوں. قطع نظر اس کے وہ ایک پیدا کرنے والے کا عجیب شاہکار ہے. یا وہ کارخانہ قدرت کی ایک لابُدّی اکائی تھی. جس کو ایک مقررہ وقت پر کرہ ارض پر جنم لینا تھا اور اس کیلئے متعین روح نے اس میں حلول کرنا تھا.

اب واپس آتے ہیں حضرت جی کی طرف….
مجھے حضرت جی سے عقیدت، ارادت اور کسبِ فیض نہیں پیار کا رشتہ ہے.

جمال میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میرے دل کو قرار بخشتا ہے. حضرت جی مردانہ وجاہت کا شاہکار ہیں. مجھے اس لئے حضرت جی سے پیار کا رشتہ ہے.
میری حاضری پر حضرت جی ایک کھلنڈرا لڑکا بن جاتے ہیں. اور میری گستاخیوں پر قہقہہ بلند فرماتے ہیں. مجھے حضرت جی کی اس لمحاتی آوارہ مزاجی سے پیار ہے.

میرا کچھ اچھا کھانے کو من کرتا ہے اور حضرت جی کے مسکن کے آس پاس ہوتا ہوں تو ان سے رابطہ کرکے بے دھڑک پوچھ لیتا ہوں. "کھانے میں کیا بنا ہے؟ ". مجھے حضرت جی کی اس بے تکلفی سے پیار ہے.
یہ سب میری غرض کے تانے اور بانے ہیں. اور انہی اغراض کے "فیبرک” کا رشتہ ہے میرا ان سے…. حضرت اپنی ذات میں ایک باپ ہیں، ایک بھائی ہیں، ایک مدرس، ایک امام مسجد، فقہ، صرف اور اصول کے ایک قابل رشک عالم ہیں. مجھے حضرت کے ان روپوں سے اکثر غرض نہیں بھی ہوتی.

تو آج میں حضرت جی کی ہفتہ وار مجلس میں ایک عرصہ بعد چند علماء کرام دوستوں کی معیت میں حاضر ہوا تھا.

حضرت یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ میں ایک ایسا مرمریں مزاج رکھتا ہوں جس پر کسی قسم کا پانی نہیں ٹک سکتا. سنگِ مرمر کی پھسلن ہر قطرے کو لڑھکادیتی ہے. کوئی نصیحت میرے لئے اثر انگیز نہیں ہے. اس لئے حضرت میرے حق میں نصیحت نہیں بلکہ تراشنے کا کام کرتے ہیں. ان کا شاید ماننا ہے کہ اس پتھر کے وسط میں کہیں کوئی خیر کا ذرہ چھپا ہے. اور وہ اسی خیر کی برآمدگی کی آس میں زرا زرا، ذرہ ذرہ مجھے گھستے رہتے ہیں.
دیکھتے ہیں میری ڈھٹائی پہلے دم توڑتی ہے یا ان کی سنگ تراشی.

واپسی پر مجلس میں شریک دوست سے ایک تحسر اور افسوس کے ساتھ عرض کیا.
"میرے سدھرنے کے کیا کبھی امکانات روشن ہونگے.؟ کہ میرا ہر عمل اللہ کریم کے رحمت کی آس پر برا عمل ہی ہوتا ہے ”

انہوں نے ایک جملہ کہا. اور میرے اندر قمقمے روشن کردئیے. دل کے تاریک، گھوک اندھیروں میں کئی چاند ایک دم سے چمکنے لگے.
کہنے لگے

” میری نظر اللہ کریم کے عفو اور رحیم ہونے سے زیادہ اس کے ہادی ہونے کی صفت پر جمی ہے. اگر ہدایت دینا واقعی اس کی صفت ہے. اور یقینا ہدایت دینا اللہ کی صفت ہے. تو پھر مت گھبرانا. تیرے حق میں ایک دن یہ صفت ضرور جلوہ گر ہوگی ”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے