ڈائنو سار اتنے بڑے کیسے ہوگئے ؟

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے گوشت خور ڈائنوسار کی ایک قسم ٹائرانوسار کی ایک نئی قسم دریافت کی ہے جس سے یہ پتہ چل سکتا ہے کہ آخر یہ جاندار اس قدر دیو پیکر کیونکر ہو گئے۔
ٹی ریکس ڈائنوسارز کا تعلق بھی اس نسل سے ہے۔
سکاٹ لینڈ کی ایڈنبرا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے امریکی اور روسی سائنسدانوں کے ساتھ مل کر ازبکستان میں اس جانور کے متحجر باقیات دریافت کیے ہیں۔
انھوں نے اس نئی نسل کا نام ٹیمورلنجیا رکھا ہے۔

نو کروڑ سال قدیم اس خونخوار جانور کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ٹائرانوسار کے غلبے کی وجہ ان کے کان اور دماغ تھے۔
ایڈنبرا یونیورسٹی کے رہنما محقق ڈاکٹر سٹیون بروساٹے نے کہا: ’ہمارے پاس ڈائنوسار کی ایک یکسر مختلف نسل ہے اور یہ ٹی ریکس کی سب سے قریبی نسل میں سے ہے، تاہم اس سے بہت چھوٹی یعنی قامت میں گھوڑے کے قد کے برابر۔

’اور اس کا زمانہ کریٹیشس عہد کے وسط کا زمانہ ہے اور فوسلز کی تاریخ میں اس کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔‘

اس کے اور ٹی ریکس کے عہد کے درمیان جو دوری اور عدم معلومات ہیں وہ ’بہت پریشان کن ہے کیونکہ آخر سر سے دم تک 13 میٹر لمبا یہ جاندار اتنا قدآور کیسے ہو گیا۔‘

ڈاکٹر بروساٹے نے کہا ’اس کی ہڈیوں کی خصوصیات ٹی ریکس سے مماثل ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ نشوونما کی خصوصیات ہیں جو بالآخر ٹی ریکس کو جانداروں کے خوراک کے سلسلے میں سب سے اوپر اور غالب بنا دیتا ہے۔‘
سائنسدانوں کی ٹیم نے ٹیمورلنجیا کے ڈھانچے کے تقریبا 25 حصوں کا مطالعہ کیا اور انھیں ایک ساتھ جوڑ کر اس کی شکل اور جسامت کا اندازہ لگایا ہے۔

انھیں اس جاندار کی کھوپڑی سب سے اہم نظر آئي اور دریافت کرنے والی ٹیم نے اس میں موجود دماغ اور کان کے اندرونی حصے کی سکیننگ کی تاکہ اس کے حواس کی صلاحیت کی تصویر تیار کر سکیں۔

ڈاکٹر بروساٹے نے کہا کہ ’ہمیں سی ٹی سکین سے کہہ سکتے ہیں ان کے دماغ اور کان ٹی ریکس سے بہت مماثل تھے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے تمام حواس، تمام ذہانت اور ٹی ریکس کے تمام اہم حواس وہیں تھے اور شاید اسی کی وجہ سے ٹی ریکس اس قدر بلند قامت بن گيا۔‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے