وہ توکافرنہیں تھی۔ ۔

ہاتھ اٹھاتی اور دھڑام سے اپنے ہی سینے پر دے مارتی۔ سر پیٹتی، وہ اپنے بال نوچ لینا چاہتی تھی۔ وہ آج دھرتی کی ساری اکڑ اپنے آنسوؤں سے نرم کر دینا چاہتی تھی۔ اس کو روتے پیٹتے، بین کرتے دیکھ کر یہی لگتا تھا۔ وہ اپنی زندگی کے خاتمہ کی سدا لگاتی تو کبھی کسی اور کو کوستی۔ وہ کبھی دھاڑتی تو کبھی سوالوں کے نشتر اوپر والے کی طرف پھینک دیتی اس کو تو کیا اثر ہوتا خود وہ ہی یہ سب کہہ کر ایسے دھاڑتی کہ فرش تو فرش عرش بھی اس ارتعاش سے کانپ جاتا ۔۔۔ نہیں شاید وہ نہیں کانپتا تھا۔

بیس برس پہلے کی بات تھی،دسمبر کی ٹھٹھرتی شامیں تھیں، اس کو خوب سجایا سنوارا گیا تھا۔ وہ تزئین و آرائش کی گئی تھی کہ لوگ دیکھتے تو دیکھتے رہ جاتے۔ اس وقت بھی اس سب کے باوجود وہ بہت روئی تھی اسے اب بھی یاد تھا۔ اس روز اسے اس کے ماں باپ نے کچھ باتیں سمجھائیں تھیں اور پھر کہا تھا اب تم بھی اپنی باجی کی طرح اس گھر سے اپنے گھر جاؤ گی۔ اپنے گھر؟؟؟ سوال اٹھا تھا مگر اتنی سی عمر میں کیا سوال کرتی بس چل دی۔

اس گھر کو اپنا گھر بنا لیا تھا مگر اس سب میں اپنی چربی گھلائی تھی۔ شادی کے کچھ گیارہ ماہ بعد ہی اللہ تعالیٰ نے اسے ایک بیٹے سے نوازا تھا۔ وہ اس ہی کو اپنی زندگی سمجھنے لگی تھی۔ شوہر تو بس نا ہونے کے برابر تھا۔ ہوا ہوا نہ ہوا۔ وہ اپنے سارے دکھ بھول کر بس اسی کی ہو جانا چاہتی تھی۔
پڑھ رہا تھا بڑا ذہین تھا۔ کچھ ماہ گزرے کالج سے یونیورسٹی پہنچا تھا۔

دو چار روز ہی گزرے تھے اس نے ماں کو کال کر کے کہا تھا ماں میں اپنے دوستوں کے ساتھ یہاں آیا ہوں، ماں میں ایک بڑا آدمی بننے آ یا ہوں، تو فکر نہ کر میں تیرا سر اونچا کرنے آیا ہوں۔ ماں تو دیکھنا خدا ہمیں جنت میں جگہ دے گا۔ توفکر نہ کر بس اور ہاں خوش رہ۔

وہ کچھ نہ بولی تھی وہ تو زندگی میں پہلے بھی کئی مرتبہ ایسے دوراہوں سے گزری تھی اور کب بولی تھی جو اب بولے گی۔

وہ فون بند کر کے جا چکا تھا۔ اس نے ماں کو سننے سے پہلے ہی فون بند کر دیا تھا۔
کئی روز ماں اس کے فون کا انتظار کرتی۔ اس کا کھانا پکا کر رکھ چھوڑتی کہ کہیں وہ ابھی آگیا تو کہے گا ماں نے کھانا بھی نہیں بنایا میرے لیے۔

وہ مولویوں کے پاس جاتی جا کر مسائل پوچھتی وہ مطمئن ہوتی جا رہی تھی اس کو سب نے بتا دیا تھا کہ تیرا بیٹا تو ہر کسی ماں کو نصیب ہی نہیں ہوتا۔وہ تو مجاہد ہے، مجاہد ۔

تو خوش نصیب ہے۔ تو بھی اپنے بیٹے کے ساتھ جنت میں رہے گی جنت میں۔ وہ وہاں سے جنت میں اپنے بیٹے کے ساتھ گزرنے والے لمحوں کو سوچتے چلی آ رہی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کو شہزادوں کے روپ میں جنت کے تخت پر اپنے پاؤں دباتے دیکھ رہی تھی۔ وہ خوش تھی بہت خوش اس کے مولوی صاحب نے کہا تھا تم وہ ماں ہو جس پر تمام ماؤں کو رشک کرنا چاہیے۔

اسی سوچ میں تھی نجانے کب راستہ ختم ہو گیا تھا اور وہ گھر پہنچ گئی تھی۔ آتے ہی صفائی ستھرائی شروع کر دی۔ اپنے ہی من میں جُت چکی تھی۔ جنت کے خوابوں میں گم۔

اوپر کی کرائے دارن کی آواز سے اپنے خواب و خیال کے ختم ہو جانے پر غصہ تھا ہی، چیخ کر بولی تھی کیا ہے کیوں چیختی ہے۔

اے سنتی ہے صدر بازار میں دھماکہ ہوا ہے۔ ٹی وی والے کہہ رہے ہیں۔ فوجی گاڑی تھی۔ چار فوجی اور بہت سے لوگ جو بازار میں آئے تھے مارے گئے ہیں۔ بھاگتی دوڑتی اوپر پہنچی تھی، وہ ٹھیک کہہ رہی تھی خبر اور نظارہ دونوں دل دہلا دینے والے تھے۔

ابھی اسی ادھیڑ بن میں تھی کہ فون بجنے لگا۔ سُمیا کہہ رہی تھی کسی کا فون ہے تجھے بلاتا ہے، آواز تو ویسی لگتی ہے جیسا فون تجھے کچھ عرصہ پہلے بھی آیا تھا۔

اس کے تیز اٹھتے قدم اچانک رک گئے، وہ رک جانا چاہتی تھی مگر بڑھتی جاتی تھی، وہ چاہتی تھی سُمیا کی ایک اور آواز آ جائے کہ نہیں شاید وہ نہیں لگ رہا۔ اس نے ان راستوں کو پہلے بھی کئی مرتبہ طے کیا تھا ایسے ہی بھاری ہو جاتے تھے۔ اس کو آج پھر ویسے ہی کیوں لگ رہا تھا۔ فون کو ہاتھ میں پکڑ کر بھی ایسے کان پر رکھا تھا کہ شاید کہہ سکے کہ کوئی بھی نہیں سُمیا تو بھی نا۔

مگر یہاں تو آواز وہی تھی دل سینہ پھاڑ کر باہر نکل آنا چاہتا تھا۔ دل جانتا تھا۔ وہ بھاگ جانا چاہتا تھا شاید۔
بی بی مبارخ ہو، مبارخ ہو۔ تمہارا بیٹا ایسا کام کیا ہے اس نے آج کافروں کے ساتھیوں کو جہنم رسید کر دیا ہے۔ اچانک اس کے دماغ میں آیا پوچھوں وہ کہاں ہے۔ اس کا لعل کہاں ہے۔
مگر اس کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔ وہ کہہ رہا تھا ، تمہارا بیٹا جنت میں پہنچ گیا ہے۔ وہ وہاں بہت مزے میں ہو گا۔
بس تم بہت خوش قسمت ہو۔

پتہ نہیں فون کب اس کے ہاتھ سے گر گیا تھا۔ سُمیا پاس کھڑی کہہ رہی تھی ۔۔۔ دیکھ تو کیا کر رہی ہے، فون ٹوٹ جاتا تو۔ تیرا دماغ تو ٹھیک ہے نا، کیا کر رہی ہے۔ کس کا فون تھا یہ۔

اس نے سوچا اپنی اس سہیلی سے اس بات کو آج نہ چھپائے وہ اس کو چیخ چیخ کر بتا دینا چاہتی تھی کہ تو بس یہ دیکھ کہ میں کتنی خوش قسمت ہوں۔ تو چاہ کر بھی مجھ سی نہیں ہو سکتی۔ تو ساری زندگی کی ریاضتوں سے بھی وہ نہیں پا سکے گی جو میں نے لمحوں میں پا لیا ہے۔

اس کے دماغ میں پھر سے جنت اور شہزادہ اور تخت سب آ گئے تھے، اچانک چہرے کی تمازت اور شگفتگی دیکھ کر سُمیا نے پھر کہا اے تو پاگل تو نہیں ہو گئی، خود ہی ہنستی ہے، خود ہی روتی ہے۔ کیا ہے کچھ تو بتا مجھے بھی۔

اس نے جذبات میں سُمیا کو اپنے سینے سے لگا لیا تھا۔ سُمیا پریشانی میں مسلسل چیخ رہی تھی سعدیہ کچھ تو بول کیا ہوا ہے سُمیا نے صرف ایک گھٹی گھٹی سی آواز ہی سنی تھی کہ اسے جھٹک کر پیچھے ہٹ گئی۔

سُمیا میرا جمشید جنت میں پہنچ چکا ہے۔

جنت میں پہنچ چکا ہے یہ کیا کہہ رہی ہے۔ ہاں نا ابھی جس کا فون آیا تھا نا اسی نے بتایا ہے میرا جمشید جنت میں پہنچ چکا ہے۔

کیا کہہ رہی ہے؟ سُمیا ٹی وی کی طرف دیکھ کر ہکا بکا کھڑی تھی۔ آخر اس نے خاموشی توڑی ’’یہ‘‘؟
ہاں یہ۔۔۔
سعدیہ یہ پاکستان کے فوجی تھے اور سب مسلمان تھے۔

ن ن نہیں، نہیں کافر تھے، ابھی ۔۔۔ اس ۔۔۔ نے ۔۔۔ کہا ۔۔۔ نا ۔۔۔ کافر تھے۔ نہیں وہ کہتا تھا ان ۔۔۔ ان کے دوست تھے وہ ساتھی تھے سُمیا ان کے ۔۔۔ کہا تھا نا اس نے ۔۔۔ یہی کہا تھا اس نے۔۔۔
نہیں سعدیہ بھلا ہمارے اپنے بھائی، بہن ہمارے اپنے ملک کے لوگ ۔۔۔ نہیں۔ یہ کافر نہیں ہیں نہ ہی ان کے ساتھی۔

نہیں تجھے نہیں پتا۔ تو جلتی ہے میرے بچے کی شہادت سے جلتی ہے۔ تجھے ایسا کرتے شرم آنی چاہیے، وہ تیرے بھی بچوں کی طرح تھا۔ وہ اس وقت جنت میں ہو گا۔ اس کا استقبال کیا جا رہا ہو گا۔ اس کو نہلا دھلا کر سجایا سنوارا جا رہا ہو گا۔ تو اس لیے جلتی ہے کہ تیرے بیٹے کو یہ قسمت نہ ملی۔
دیکھ میں یہ خوشی سوائے تیرے کسی سے بانٹ بھی نہیں سکتی۔

سعدیہ خود سوچ جس بات کو تو کسی سے بانٹ نہیں سکتی وہ بات کیسے صحیح ہو سکتی ہے۔
اچھا تو باز نہیں آتی، میں چلتی ہوں۔ وضو کرتی ہوں اور خدا کے حضور نوافل ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے اتنی بڑی خوشی دی۔ مولوی صاحب کہتے تھے میں بھی اس ہی کے ساتھ رہوں گی۔ دیکھنا تم۔۔۔
سعدیہ ۔۔۔ سعدیہ!! سعدیہ کے نوافل پڑھتے پھر سُمیا کی آواز آئی اس نے جلدی جلدی سلام پھیرا اور پھر اوپر بھاگ گئی۔۔۔
سانس سنبھالتے ہوئے بولی۔۔۔

اب تجھے کیا ہوا ایسے کیوں چیخ رہی ہے اور یہ تو رو کیوں رہی ہے، کہا نا ہمارا جمشید جنتی ہے۔ تو کیوں فکر کرتی ہے۔

سعدیہ اس نے ایک اور کافر کو بھی مار دیا ہے۔ ہیں! کس کو ۔۔۔ دیکھا میں نا کہتی تھی، شیر ہے، میرا بیٹا شیر۔۔۔ تیری بیٹی بھی اس بازار میں گئی تھی۔ ابھی اس کی ساس کا فون آیا ہے۔

یہ سننا تھا کہ سعدیہ وہیں زمین پر ڈھیر ہو گئی تھی اور اس کے ہاتھ اس کے سر کی طرف اٹھ گئے تھے۔ وہ کافر تو نہیں تھی ۔۔۔ وہ کبھی گھٹی گھٹی آواز میں اور کبھی چیخ کر بولتی جاتی تھی۔۔۔ وہ۔۔۔کافر۔۔۔ تو۔۔۔ نہیں تھی۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہ کافر۔۔۔ کیسے۔۔۔ ہو سکتی۔۔۔ تھی۔۔۔ وہ ان کی دوست کیسے ہو سکتی تھی۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے