کیا ہم تیل پیناشروع کردیں؟

ملک کی سلامتی الحمدو للہ محفوظ ہاتھوں میں ہے لیکن عوام کی سلامتی جن ہاتھوں میں ہے اس پر سوالیہ نشان ہیں۔ تحفظ سے مراد یہ نہیں کہ ہمیں کوئی لوٹ نہ لے۔ ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔ہمارےسرمائے محفوظ رہیں نہیں بلکہ تحفظ میں اسکو کہہ رہا ہوں کہ جناب کون ہے جو ہمارے بچوں کے مسقبل کو محفوظ بنا رہا ہے۔

کون ہے جو ہمارے روز مرہ کی ضروریات کو تحفظ کو دے رہا ہے کون ہے جو ہمارےعلم کے معیار کو محفوظ کر رہا ہے۔ کون ہے وہ ۔کیا وہ پارلیمان میں بیٹھے یہ جاگیردار ہیں۔کیا یہ چوہدری ہیں کیا خان ہیں کیا یہ سردار ہیں کیا راجے ہیں کیا ملک ہیں ارے جناب یہ تو محافظ ہیں اپنی پارٹی کی بقا کے ،اپنی کرسی کے، اپنے حلقےمیں قائم اجارہ داری کے ، اپنے مخالفین کےخلاف ہونے والے پروپیگنڈے کے، ان لوگوں کے جو ان کے لیے کل ووٹ کےڈبہ بھرنے میں کام آتے ہیں۔

جب ان پر بات آتی ہے تو یہ ایوان میں سر سے سر جو ڑ کر بیٹھ جاتےہیں ۔دھرنے کے دنوں میں میں نے دیکھا تھا کہ وزیر اعظم پاکستان کس طرح گھنٹوں بلکہ کئی دنوں ایوان سے نکل ہی نہیں رہے تھے۔تب نکلے جب ان کی جان میں جان آئی کہ جنا ب دھرنے سے ان کو کوئی خطرہ نہیں۔کیا ان کو فکر تھی کہ قوم کا بچہ بھوکا سوتا ہے۔ قوم کا بچہ غیر تعلیم یافتہ پروان چڑ رہا ہے۔ کیا ان کو فکر ہےکہ قوم کا بچہ صحت کی بنیادی سہولتوں سےمحروم ہے۔ کیا ان کو فکرہے کہ قوم کی بیٹی کی عصمت تار تار ہورہی ہے۔ کیا ان کو فکر ہے کہ ماں اپنے بچوں سمیت دریا میں کو د رہی ہے۔کیا ان کو فکر ہے کہ والد اپنے بچوں کو زیر دے کر مار دیتا ہے ۔

ہاں ان کو فکر ہے کہ ملک میں کس طرح کالے دھن کو سفید کیا جائے ۔ ان کو فکر ہے کہ سرمایہ داروں کو کس طرح زیادہ سے زیادہ فائدہ دیا جائے تاکہ وہ مستقبل میں ان پر خرچہ کر سکے۔ ان کو فکر ہے کہ ان وزیر ،مشیر اور اردگرد واہ واہ اور سب اچھا کی الاپ لگانے والے کس حد تک مستفید ہو رہے ہیں ۔

نوازشات کا جو بازار گرم ہے اس کا اندازہ ہم نہیں کرسکتے ۔ بلدیا تی الیکشن کے نام پر دوبارہ عوام کو بے وقوف بنا کر اور اس کے مینڈیٹ کو جس طرح تار تار کیا گیا۔وہ نہ کوئی سمجھ سکا نہ سمجھ سکے گا۔ اگر ایک گلی ان کے سپورٹر کی نہیں تو وہ مرمت کے قابل نہیں ۔جس حکمران کو یہ معلوم نہیں کہ اس وقت اشیائے خورونوش کی کیا قیمت ہے مارکیٹ میں تووہ کس طرح براجمان ہے اقتدار پر ۔ لیکن کیا کریں قوم کو تو اپنی پڑی ہے وہ مصروف ہیں اپنے دن کی روٹی پوری کرنے میں ۔وہ مصروف ہیں اپنے بچوں کے علاج کی فکر میں۔وہ مصروف ہیں اپنے گھر کے کرائے پورے کرنے میں ۔ وہ مصروف ہیں بجلی گیس کے بلوں کی پورا کرنے میں۔ بنیادی چیزیں جن کو مہیا کرنا حکومت وقت کا کام تھا وہ عوام اپنے طور پر پورا کرنے میں لگی ہے۔

عالم یہ ہےکہ جب تیل کی قیمتیں اوپر جارہیں تھی تو ہر چیز پر قیمت بڑھ رہی تھی کہ جناب تیل مہنگا ہوگیا ہے ۔لیکن جب کم ہوا تو وہ قیمتیں وہیں کی وہیں ۔تو کیا ہم تیل پینا اور کھانا شروع کردیں۔سڑکوں، پلوں اور میٹروں نے تو گھر کا چولہا نہیں چلانا ۔جناب اس قوم پر رحم کریں ۔کچھ تو اس کا حل سوچیں۔ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے مارکیٹ میں آکر ریٹ چیک کرنا۔

اچانک چائلڈ لیبر کے نام پر بٹوں پر چھاپے مارنے سے مسائل حل ہونگے؟ یہ بتائیں کہ جن بچوں کو تعلم دینے کے لیے وزیر اعلی موصوف بھٹوں پر جا پہنچتے ہیں ۔ ان کو کوئی پوچھے وہ تعلیم پر آنے والے اخراجات کہاں سے لے کر آئیں ؟کیا آپ نے تعلیم کو اتنا سستا او ر مفت کر دیاہے کہ عام آدمی کو علم حاصل کرنے کے لیے اخراجات کی فکر نہ ہو۔ مسائل کی جڑ کو نہیں ختم کرنا صرف فوٹو سیشن کے نام پر قوم کو بے وقوف بنانا ہے۔میں یہ ہی کہوں گا کہ کچھ شرم ہوتی کچھ حیا ہوتی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے