لڑکی کام کاج بھی اچھا کر لیتی ہے،دیکھنے میں بھی اچھی ہے، موٹی نہیں ،قد چھوٹا نہیں، پڑھی لکھی ہےایم ایس سی کیا ہو ا ہے سرکاری نوکری کرتی ہے اچھا کما لیتی ہےا،امیر ہیں ،اچھے خاندان کی ہے اور تو اور اکلوتی بیٹی ہے اس سے بڑھ کر کیا چاہیے۔
یہ ایک شادی کروانے والی عورت لڑکے والوں کو بتا رہی تھی۔پوری رام کہانی سننے کے بعد لڑکے والوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا کہ جیسا آپ بتا رہے ہیں اس سے ہمیں لگتا ہے کہ لڑکی پسند آجائے گی اگر ایک تصویر بھی دیکھا دیں تو یہ تجسس ختم ہوجائے اور ہم اپنے لڑکے کو بھی دیکھا لیں گے اور پھر بات آگے بڑھاتے ہیں۔تصویر دیکھ کر لڑکے والوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر عجیب تعجب بھری نگاہوں سے رشتے کروانے والی عورت کو دیکھا اور کہا کہ تم نے جو یہ سب باتیں بتائی تھیں وہ اپنی جگہ ہوں گی لیکن اس کا رنگ تو دیکھو ، نہیں نہیں ۔۔ہمارا لڑکا گورا شہزادہ ہے اس کالی کے ساتھ بلکل جوڑی سوٹ نہیں کرے گی اس لیے ہماری طرف سے نہ سمجھو۔۔۔
لڑکا اچھے اسکول میں پڑھا،کالج یونیورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کی ۔بس اب ایک یہی خواہش تھی کہ کسی طرح بھی گوروں کے ملک چلا جاو وہاں جا کر کسی گوری سے شادی ہو جائے اور بس پھر اپنی لائف سیٹ۔۔ گویا گورا ہونا جیسے کامیابی کی ضمانت ہو۔
دوسری طرف ماں بیٹی کو سمجھا رہی تھی کہ بیٹاتمہارے ماموں کا بیٹا ہے افریقہ میں ،وہیں پلا بڑا ہے اپنا کاروبار ہے کروڑوں میں کھیلتا ہے خوش رہو گی آج کل اتنے شریف لڑکے کہاں ملتے ہیں میری مانو تو ہاں کردو۔۔بیٹی کا یہ سننا تھا کہ پھٹ پڑی کہ ہاں شادی نہیں ویسے ہی پھینک دیں مجھے ،بےشک ہمارا اپنا ہے لیکن آپ نے اس کا رنگ دیکھا ہے ہمارا نہیں افریقی لگتا ہے وہ میری اس سے شادی ہوگئی تو میری سہیلیاں میرا کتنا مذاق اڑائیں گی میں کیسے کروں کی برداشت۔۔نہیں نہیں کبھی نہیں۔۔۔
معاشرہ جیسے جیسے ترقی کر رہا ہے ویسے ویسے بہتری کے ساتھ بگاڑ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔مندرجہ بالا فرضی مثالیں جو حقیقت کے قریب ہیں۔انسان و معاشرہ جتنا مرضی پڑھ لکھ جائے لیکن آج ماڈرن دور میں بھی انسان اس تعصب کو نہیں چھوڑ پا رہا ۔امریکا ہو یا افریقہ،بھارت ہو یا پاکستان سب اس سیاہ و سفید کی زنجیروٕ ں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ذرائع ابلاغ پر چلنے اور چھپنے والے اشتہارات نے بھی ان زنجیروں کو مزید مضبوط کیا ہے ۔پہلے تو یہ سحر صرف خواتین تک محدود تھا کہ ایک دوسرے کو گورے رنگ میں مات دینی ہے لیکن اب مرد بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے اور ذرائع ابلاغ پر چلنے اور چھپنے والے اشتہارات نے مردوں کے دل بھی اس حد تک پگھلا دیا ہے کہ اب وہ بھی ایک دوسرے سے گورا دیکھنے کے لیے سر توڑ کوشش کرتے ہیں اور خوب رنگ و روغن کرتے ہیں۔
رنگ گورا کرنے والی کریموں نے کامیابی سے انسانوں پر اس حد تک اثر کیا ہے کہ گورے رنگ کو کامیابی اور خوبصورتی کی علامت سمجھ لیا گیا ہے۔اور سیاہ رنگ کو بد صورتی اور حقارت کی علامت بنا دیا گیا ہے۔حال ہی میں ایشیا کی دو بہنوں مروشا یوگا راجہ اور ینو شایوگاراجہ نے دسمبر سے ایک تحریک شروع کی ہے جس میں رنگ کے امتیاز پر آواز بلند کی ہے کیونکہ ان بہنوں میں ایک کا رنگ سیاہ اور دوسری کا گوراہے ۔
شاید ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ جو فرق ہم نے بنایا ہے یہ ہمارا بنایا ہوا تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقت میں یہ فرق صرف ذہنی فرق کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ حضرت بلال حبشی کا اسلام میں مقام، روزا پارس کا احتجاج اور پھر اس کی کامیابی، کوفی عنان کی اقوام متحدہ میں کامیابیاں، نیلسن منڈیلا کی جدوجہد اور باراک اوباما کی صدارت تک اور بے شمار سیاہ فام شخصیات نے ظاہری گوروں کے سیاہ دماغوں پر کامیابیاں حاصل کیں اور اپنا لوہا منوایا۔
انسان کا گورا ہونا اور کالا ہونا شاید انسان کے بس میں نہ ہو لیکن اندرکا تعصب اور انسان کو انسان سمجھنا شاید ہمارے بس میں ہے۔ ہمیں اب رنگ گورا کرنے والے کریموں سے زیادہ کوئی ایسی پروڈکٹ بنانی چاہیے جو ہمارے اندر کی غلاظت کو دور کرے اور ہم بغیر کسی تعصب، رنگ و نسل ، مذہب و عقائد کی بنا کر برابر سمجھیں۔ کیونکہ تاریخ ایسی مثالوں اور ایسے واقعات سے بھری پڑی ہےجہاں گورے رنگ والے سیاہ نظر آنے والوں کے در پر ہاتھ باندھے پڑگے پائے گئے ہیں۔