دھرنا علماء! کیا یہی اسلام ہے؟

پر امن مظاہرہ جمہوریت کی نشانی ہے ۔ اور تمام مہذب معاشروں میں اس کی اجازت ہے ۔ لیکن مظاہرین کے لئے مظاہرے کے چند اصول بھی موجود ہیں ۔ جن پر عمل کرنا مظارین پر فرض ہے ۔ احتجاج اگر احتجاج کے دائرہ میں رہ کر کیا جائے تو ٹھیک لیکن اگر یہ احتجاج عام شہریوں کے لئے وبال جان بن جائے تو کیا اس احتجاج کی اخلاقی حیثیت باقی رہ جاتی ہے ۔

ڈی چوک میں بیٹھے علماء کرام جو کہ بظاہر پاکستان کی نصف آبادی کی نظر میں صحیح مسلمان اور عالم دین ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے حوالے سے ہم اسلام اور قرآن کی تشریح کی توقع رکھتے ہیں ، ہمارے بچے ہوش سنبھالنے کے بعد ماں کے بعد انہی کو استاد مانتے ہیں ۔ دین کا کوئی مسئلہ پوچھنا ہو یا نماز اور قرآن کا مفہوم ۔ ہماری پہلی ترجیع یہی علماء دین ہوتے ہیں ۔ لیکن یہ کیا ۔

ڈی چوک پر بیٹھے یہ علماء کرام جو خود کو سب سے بڑا مسلمان اور عالم دین کہتے ہیں ان کی زبان سے وہ سب کچھ سن کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا یہ ہیں وہ لوگ جو ہمیں اسلام سکھاتے ہیں ، مجھے آج شرم آ رہی ہے کہ ہم اپنا دین ان لوگوں سے سیکھتے ہیں جنکو خود دین سمجھنے کی اشد ضرورت ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آج اس لئے ڈی چوک میں پارلیمنٹ کے سامنے موجود ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان مین شریعت کا نفاذ ہونا چاہیئے لیکن ان سب کے منہ سے شرم انگیز الطاف سن کر نہ صرف خود کو مسلمان کہتے ہوءے شرم آ رہی ہے بلکہ ہم یہ سوچنے پے بھی مجبور ہیں کہ یہ علماء بیرونی دنیا کو اسلام کا کونسا روپ سمجھانا چاہتے ہیں ۔

اس دھرنے میں چار دن سے موجود یہ لوگ کیا ایک دن بھی باجماعت نماز ادا کر سکے ؟ کیا ان علماء نے ایک دن بھی اس دھرنے میں غلیظ اور گھٹیا الفاظ کی بجائے اسلام کا علم بلند کیا؟ کیا ان علماء کو اس بات کا احساس تک بھی ہوا کہ جن ماوں ، بہنوں ، بیٹیوں کو شرمناک القابات سے نوازا جا رہا ہے ، جس طرح خواتین کے حوالے سے غلیظ گالیاں دے کر اپنے ایجنڈے کو نمایاں کیا جا رہا ہے یہ تمام علماء بھی کسی نہ کسی خاتون کے پیدا کئے ہوئے ہیں اور یہی عورتیں انکی اپنی مائیں بہنیں بیٹیاں بھی ہیں ۔ کیا ان علماء کے گھروں میں خواتین نہیں ہیں ؟ کیا ان علماء کو اس بات کا احساس تک بھی ہے کہ اتنے مجمع میں جسطرح گالیاں دے کر خواتین کی تذلیل کی جارہی ہے یہی گالی ان کی اپنی خواتین کے لئے بھی ہو سکتی ہے ۔

یہ جید علماء کیا نہیں جانتے کہ انکی یہ حرکات دنیا بھر میں نہ صرف مسلمانوں کے لئے باعث شرم ہیں بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی باعث تکلیف ہیں ۔ جس نبی کا نام لے کر یہ علماء شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں کاش اس نبی کے فرمان پر ایک فیصد ہی عمل کر سکیں ۔

انتہائی شرم سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ ان علماء کو خود تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہے ۔ انہیں کاش اس بات کا احساس ہو سکے کہ جو زبان یہ لوگ پورے ملک میں دھرنے کے دوران استعمال کر رہے ہیں یہ اپنی تربیت کا پتہ دے رہے ہیں ۔ کاش ان کو یہ احساس ہو سکے کہ یہ لوگ اسلام کی ترویج نہیں بلکہ اسلام کی توہین کا سبب بن رہے ہیں ۔ کاش انکو یہ احساس ہو سکے کہ یہ ملک ان انرکیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔

میری ان نام نہاد علماء سے اپیل ہے کہ خدارا اس ملک پر رحم کریں ۔ ہمیں اور ہماری آئندہ نسلوں کو اسلام کے نام پر گمراہ کرنے کی مذموم کوشش نہ کریں ۔ ہمیں ایسے اسلام کی ضرورت نہیں ہے جس سے شہریوں کی جان و مال کو خطرہ ہو، ہمیں وہ اسلام نہیں چاہئیے جس میں ماں ، بہن ، بیٹی کی عزت نہ ہو ۔ ہمیں اس اسلام کی ضرورت نہیں ہے جو اخلاق سے گری ہوئی باتیں کرنا سکھاتا ہو۔

ہمیں تو وہ مسلمان بننا ہے جو آپس میں محبت اور رواداری سکھاتا ہے ، ہمیں اس اسلام کی ضرورت ہے جو رشتوں اور انسانیت کا احترام سکھاتا ہے ۔ ہم تو وہ اسلام چاہتے ہیں جو انتہا پسندی اور دہشت گردی سے روکتا ہے ۔ ہم وہ اسلام چاہتے ہیں جس میں ایک انسان کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے انسان محفوظ ہوں ۔
وہ اسلام چاہئیے جو توڑ پھوڑ اور نفرت انگیزی سے روکتا ہے ۔

ڈی چوک دھرنے سے اسلام کا وہ چہرہ دکھایا گیا ہے جس کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔ اللہ ہم سب کو اپنی امان میں رکھے اور صحیح عالم دین سے اسلام سیکھنے اور سمجھنے کی توفیق دے ۔آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے