دھرنا "صوفی” کو بےنقاب کرگیا ۔

کیا مذہبی رہنماؤں کو اس طرح گالیاں دینا زیب دیتا ہے

رسول اللہ ؐ نے مسلمانوں کو روکا کہ وہ اپنے سچے خدا کی خاطر دوسروں کے معبودان باطل کو بھی گالی نہ دیں ۔ ایک حدیث کے الفاظ ہیں کہ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے ۔ اسی طرح زمانے کو گالی دینے سے روکا گیا ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے گالیاں دینے والے کو ظالم قرار دیا ہے۔ اللہ کا حکم ہے کسی کو برے لقب سے مت پکارو ، یہ ایمان لانے کے بعد بہت بڑا گناہ ہے اور جو لوگ اس کے بعد توبہ تائب نہیں ہوتے ،یہی لوگ ظالم ہیں ۔

گالی دینا تو کسی کو بھی کسی حالت میں درست نہیں اور خصوصا وہ طبقہ جو خود کو معاشرے میں اعلیٰ اخلاق اور کردار کی وجہ سے پہچان رکھتا ہو، اس کا مذہبی لباس میں نازیبا اور اخلاق سے گری ہوئی گفت گو کرنا لوگوں کے لیے ایک حیران کن عمل ہے ۔ میرے نزدیک مذہب کا ایک ہی مقصد ہے کہ وہ معاشرے میں بلند اخلاق اور کردار کے حامل انسان تیار کر تا ہے تاہم جب یہ ادارہ خود ہی کرپٹ ہو جائے تو زوال کی ان صورتوں کا سامنے آنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ۔ گالی دینے کا تو کوئی جواز پیدا ہی نہیں کیا جا سکتا اور ناہی اس کی حمایت کی جا سکتی ہے تاہم اہل مذہب کی جانب سے گالم گلوچ اور پھر اس کا جواز نکالنا اخلاقی پستی اور تنزلی کی انتہا بن جاتی ہے ۔

مذہبی رہ نماؤں کی تو معاشرے میں پہچان ہی یہی ہے کہ کہ وہ لوگوں کو گالم گلوچ سے روکتے ہیں ۔ جب یہ عمل خود ان سے منسوب ہو جائے تو لوگوں کا مذہب پر اعتماد ٹوٹنا شروع ہو جاتا ہے ، لوگ مذہب کتابوں سے نہیں ،افراد اور معاشروں سے سیکھتے ہیں ۔

علم انسان میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرتا ہے ،قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ سے ڈرنے والے وہی ہیں جو صاحبان علم ہیں ۔ یعنی علم کا کمال یہ ہے کہ وہ صاحب علم میں خدا کا خوف پیدا کرے ۔

ہمارے مذہبی رہ نما چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگوں کو بغیر سوچے سمجھے ، ان کا موقف اور مقدمہ جانے بغیر توہین مذہب کا الزام لگا دیتے ہیں ۔ جب یہ کام مذہبی رہ نما کریں گے تو یہ بھی توہین مذہب شمار ہوگا، ان کی جانب سے مذہبی تعلیمات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کا مطلب بھی اہانت مذہب ہے اور اس میں ان کے ساتھ تعاون کرنا بھی مذہب کی توہین ہی شمار ہوگا ۔

علماٗ کہتے ہیں کہ وہ وارثان نبوت ہیں ۔ نبوت تو معاشرت کی تعمیر کا نام ہے ۔ نبوت فکر انسانی کی تطہیر کا نام ہے ۔ نبوت تو بندے کو بندے سے اور بندے کو خدا سے ملاتی ہے لیکن یہ کیسی وراثت نبوت ہے جس میں تخریب اور جہالت کی ہر شکل اپنی انتہا پر کھڑی ہوئی بال کھولے برہنہ رقص کر رہی ہے ۔ کیا یہ اسلام ہے ؟

عام لوگوں نے جب مذہبی رہ نماؤں کی سٹیج پر بیٹھ کر مائیک پر گالم گلوچ سنی اور دیکھی تو ان پر اس کے انتہائی برے اثرات مرتب ہوئے اور ان کے ذہن اور گمان میں ان شخصیات سے متعلق جو تقدس کا بت بنا ہوا تھا ، وہ ٹوٹ گیا ۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسی وجہ سے بھی دھرنا چھوڑ کر چلی گئی ۔

پاکستان میں بریلوی مکتب فکر کو ایک پرامن فرقہ سمجھا جاتا تھا اور صوفیوں کی تعلیمات کا حامل ہونا اس کی شناخت تھی تاہم گذشتہ کچھ عرصے اس فرقے سے وابستہ کچھ لوگوں میں تشدد نے انگڑائی لی ۔ سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کے چہلم کے موقع پر اسلام آباد میں پولیس پر تشدد ، توڑ پھوڑ ، گالم گلوچ اور نازیبا الفاظ پر مبنی وال چاکنگ نے لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ ان کے بارے میں قائم کی گئی رائے کو بدلیں ۔

عوام کو اشتعال دلانے والی تقاریر اور مسلکی منافرت پر مبنی گفت گو کی ویڈیوز اب سوشل میڈیا پر وائرل ہیں ۔ ان کی موجودگی میں اب شاید ہی کوئی اس رویے سے جڑی شخصیات کا دفاع کر سکے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مسالک کے جید علماء کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ حجروں سے باہر نکل اس جنونیت پر قابو پائیں ورنہ کل خود بھی تیار رہیں . اب دشمن کے بچے سے پہلے اپنا بچہ ٹی ٹی پسٹل ہاتھ میں اٹھا لیتا ہے . تو حضرت جی زرا محتاط ،

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے