وزیراعظم نے کلبھوشن یادیو کو کیوں نظر انداز کیا ؟

حکومت پاکستان بلوچستان سے گرفتار کئے گئے بھارتی جاسوس کے معاملے میں جس طرح مِنقار زیر پر ہے، وزیر اعظم نے اپنے قوم سے خطاب میں عوامی امنگوں کے بر عکس اس معاملے کو جس طرح بالکل نظر انداز کیا، اس سے ان الزامات کو تقویت مل رہی ہے کہ شریف خاندان کے بھارت سے تعلقات میں کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ خاص ضرور ہے اور جناب عمران خان شریف خاندان کے بھارت سے جڑے کاروباری مفادات کو بلاوجہ اسکینڈلائز نہیں کر رہے۔

یہ ایک عام تعاملی اصول ہے کہ ایک کردار، واقعے اور تجربے کو دیکھ کر اس سے جڑی ماضی کی ساری کڑیاں یاد آجاتی ہیں۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد ن لیگ بر سر اقتدار آئی تو حکومتی سطح پر بھارت کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی لانے کے لئے یک طرفہ طور پر اس قدر بے تابانہ اقدامات کئے جانے لگے کہ کئی بار مقتدر قوتوں (اسٹیبلشمنٹ) اور محب وطن حلقوں (بعض حساس لوگوں کے بقول’اسٹیبلشمنٹ کے ٹروجن گھوڑوں’) کی جبینیں بڑھتی ہوئی تشویش سے شکن آلود ہوئیں، مگر لیگی حکمرانوں نے اپنی خو نہیں بدلی، وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی، سو اب بھی ہے۔ کسی مخالفت کی پروا کئے بغیر وہ اپنی اس یکطرفہ فدا کاری کی روش پہ مسلسل کار بند رہے، چنانچہ روایتی دشمن کے کاکُلِ پیچان پہ ان کے لٹو ہونے کی کہانیاں سندھ طاس معاہدے کے تحت کشن گنگا ڈیم کے تنازعے میں پاکستان کا مقدمہ شعوری طور پر کمزور کرکے ہارنے سے لے کر سارک اجلاس، اوفا سمٹ، پیرس و کابل کی تقریب ہائے بہرِ ملاقات میں پاکستان دشمنی پہ ادھار کھائے ہوئے وزیر اعظم ھند جناب نریندر مودی سے فدویانہ راز و نیاز اور سفارتی آداب و اصولوں کو سفارت کاری کے منہ پہ مارتے ہوئے انہیں گھر بلانے تک پھیل گئیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری کی ضرورت و اہمیت سے کوئی بھی ذی شعور شخص انکار نہیں کر سکتا، مگر بات یوں ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے کبھی نہیں بجتی۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی شخص ایک ہاتھ سے تالی بجانے کی کوشش کرے گا تو اسے آخری درجے کا "عقل مند” ہی کہا جائے گا، ایسے شخص کو بہت سے ستم ظریف نواز شریف بھی قرار دیتے ہیں۔

دنیا کی کوئی قوم بالخصوص نائن الیون کے بعد داخلی استحکام اور سلامتی کے معاملات میں کوئی سمجھوتا نہیں کرتی، اور چھوڑیں اسی بھارت اور پاکستان دشمنی میں اس کے ساتھ نئے کٹھ بندھن میں جڑے ہوئے ایران کو دیکھ لیا جائے، یہ کیسے اپنی سلامتی سے متعلق چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں بھی کس قدر حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور بات بے بات پاکستان کو دفاعی پوزیشن پہ دھکیل دیتے ہیں، فرض کیجئے پاکستان کا کوئی اہلکار ان ملکوں میں اس طرح کی سرگرمیوں میں پکڑا جاتا تو حالات کا کیا منظر نامہ ہوتا، کیا یہ ملک پاکستان کو کسی طرح کی بھی رعایت دیتے؟ سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ مگر ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں کہ بھائی مسئلہ کیا ہے؟ کوئی بھی قومی آزادی کا مقدمہ لڑنے کے لئے تیار نہیں۔ جدید سیاسی نظریے کے مطابق ریاست اس سرزمین کو کہتے ہیں، جس کا علاقہ (Area) متعین اور اسے مکمل آزادی و خود مختاری حاصل ہو۔ جب بیرونی قوتیں اس قدر دخیل ہوجائیں کہ اپنے جاسوسی نیٹ ورک کامیابی سے چلا کر اسے مفلوج کر کے رکھ دیں اور حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے تو کہاں کی ریاست، کیسی ریاست؟

بھارتی جاسوس کی گرفتاری کے سنگین واقعے پر حکومت کی پر اسرار خاموشی بہت سے ایسے سوالات کو جنم دیتی ہے، جو حکمران خاندان کی ملک و قوم کے مفاد پر ذاتی کاروباری مفادات کو ترجیح دینے جیسی احمقانہ سوچ کا طواف کرتے ہیں۔ ایسے ہی حالات میں پھر مقتدر قوتوں کو پرویز رشید جیسے درباری بھونپوؤں کو زبردستی دنیا کے سامنے میجر جنرل عاصم باجوہ کے پہلو میں بٹھا کر "ضبط نفس” کا مظاہرہ کرنے پہ مجبور کرنا پڑتا ہے۔ اس سے بھی جمہوری افلاطونوں کا دماغ چھوٹے چھوٹے مفادات کی چراگاہوں سے واپس نہ آئے تو کچھ ایسا کرنا پڑتا ہے کہ سیاسی بزرجمہر "ایک پیج پہ ہیں” کا کرب گلوگیر لہجے میں ظاہر کرنے پہ مجبور ہوجاتے ہیں۔ راحیل شریف چونکہ پیشہ ور سپاہی کی شہرت رکھتے ہیں، اس لئے جب تک یہ موجود ہیں، ایسے مواقع پر حالات کے اس مرحلے سے آگے جانے کی کسی بھی صاحبِ نظر کو توقع نہیں، ورنہ جاننے والے جانتے ہیں عشق کے امتحاں اور بھی ہیں، جن کے اختتام پر چودھری شجاعت کے بقول ٹرپل ون بریگیڈ کا ایک ٹرک اور دو جیپ بوٹوں کی دھمک لے کر نمودار ہو جاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے