ایک سماجی گھٹن

اگر علمائے کرام اور قائدین قوم فرقہ واریت سے مستقل نجات چاہتے ہیں اور اتحاد امت کی خواہش میں سنجیدہ ہیں تو مدراس کے دروازے علم و حکمت کے سارے متلاشیوں کے لیے بلا تفریق مکتبہ فکر کھول دیجیے،

مسلکی مساجد کے دروازے ہر عبادت گزار کے لیے عام کر ددیجیے۔

مسلکی جماعتوں کی ساخت میں گنجائش نکال لیجیے۔

مدارس، مساجد، جماعتیں، کتب خانے، مراکز اور جملہ سرگرمیاں مسلکی خول میں ہوں اور اتحاد و وحدت کی سربراہی کانفرنسیں جاری رکھی جائیں تو ان کے دُور رس و پائیدار ثمرات نہیں نکلیں گے۔ کیونکہ تمام مسلکی اداروں، جماعتوں اور مراکز کی بقا اسی میں مضمر ہے کہ فرقہ وارانہ خول مضبوط رہے اور اس کی فصیلیں کسی بھی طرح کمزور نہ ہوں۔

فرقہ واریت ایک تنگی اور گھٹن کا نام ہے۔ میری نظر میں فرقہ واریت ایک مذہبی مسئلہ نہیں ہے بلکہ مذہبی لبادے میں ایک سماجی وسیاسی معاملہ ہے۔ اس سے سماجی انداز میں ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ اسے کے سیاسی و سماجی پہلوؤں کا جامع جائزہ لے کر ہی اس کے پائیدار حل تلاش کیے جا سکتے ہیں۔

اس سے نمٹنے کا سماجی اسلوب کا مطلب یہی ہے کہ معاملے کے اسباب و اثرات اور مراحل اور جملہ محرکات کے جامع جائزے کی روشنی میں مسلئے کے متعدد حل تلاش کیے جائیں۔

کسی معاملے سے نمٹنے کے دو اسلوب ہیں۔ ایک ڈائریکٹ اپروچ، اور دوسرا انڈائریکٹ اپروچ، مختلف مراحل اور صورت حال میں مختلف اسلوب اختیار کیا جا سکتا ہے۔

اگر فرقہ وارانہ تعصبات کے مستقل ازالے کے لیے اداراتی اور تنظیمی سطح پر دیگر مسالک کی خاطر گنجائش نکالنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم ایک متنوع سماج میں اجتماعی زندگی گزارتے ہوئے اختلاف کے باوجود باہمی احترام سے جینے کی بنیادی اخلاقی و مذہبی اقدار اپنا لیجیے اور مختلف طبقات کے مابین سماجی تعامل کو فروغ اور بندھنوں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کیجیے تو فرقہ واریت سمیت تمام پیچیدہ سماجی مسائل بہتری کی طرف خود بخود بڑھیں گے۔

قرآن مجید بھی مجالس میں کشادگی پیدا کرنے کا حکم دیتا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ
اے ایمان والو! جب تم سے کہاجائے کہ مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو کشادگی پیدا کر دیا کرو، اللہ تمہیں کشادگی دے گا (سورہ مجادلہ آیت نمبر ۱۱)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے