میڈیا وار اور کشمیر

I protest against the things u have done

i protest for the mother who lost her son

i protest i will throw stone and never run

I protest untill my freedom has come

I protest for my brother who’s dead

i protest against the bullet in his head

 

 

یہ الفاظ ایم سی کیش کے ایک گانے کے ہیں ، اس کے سبھی گانے حالات کے خلاف پر امن احتجاج کی ایک خوبصورت مثال ہیں۔ ایم سی کیش مقبوضہ کشمیر کا ایک عمدہ شاعر اور گلوکار ہے ، جس نے نوے کی دہائی کے کشمیر کو بچشمِ خود دیکھا اور جو کچھ دیکھا اس کے اظہار کے لئے اس نے موسیقی کی ایک جدید صنف ہپ ہاپ کو اپنایا ۔ وہ اپنے نغمے خود لکھتا اور خود ہی گاتا ہے اور یہ سب وہ اپنی مدد آپ کے تحت کرتا ہے ۔ سنا ہے کہ کئی بار پولیس نے اس کے سٹوڈیو پر چھاپا مارا ،محض یہ دیکھنے کے لئے کہ اسے کون سپورٹ کرتا ہے لیکن پولیس کو کچھ نہ مل سکا۔

دراصل اس کا جذبہ اور صلاحیت ہی اسے سپورٹ اس کرتی ہے اور جذبے کسی کے محتاج نہیں ہوا کرتے۔ ایم سی کیش نے کشمیر کے حالات کو دنیا بھر میں اجاگر کرنے کے لئے جو طریقہ کار اپنایا اس نے کچھ ہی عرصے میں کافی شہرت پا لی ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کی نوجوان نسل اس کو بے حد پسند کرتی ہے اور یہ بھی سنا ہے کہ وہاں کے بہت سے لڑکے اب اپنے جذبات کے اظہار کے لئے اس کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ۔

اپنے ایک گذِشتہ مضمون میں میں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور انڈیا کے انٹرٹینمنٹ میڈیا کی ذمہ داریوں کو موضوع بنایا تھا مگراس بار میرا موضوع مسئلہ کشمیر کا تیسرا اور بنیادی فریق یعنی خود کشمیری عوام ہیں اور دراصل کشمیری ہی اس کے زیادہ ذمہ دارہیں ۔ آزمائش جتنی بڑی ہو ذمہ داری بھی اتنی ہی بڑی ہوتی ہے اورحالات تبھی بدل سکتے ہیں جب فرد، معاشرہ اور حکومت سب کے سب اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور مناسب طریقے سے نبھائیں ،

میں نے پہلے لکھا تھا کہ انٹرٹینمنٹ میڈیا اس حوالے سے پوری جنگ لڑ سکتا ہے، کہہ سکتے ہیں کہ پرامن جنگ، آزاد کشمیر کے لوگوں پر زیادہ ذمہ داری ہے کیونکہ ہم ہیں جو خود کو ہر جگہ پر کشمیریوں کا نمائندہ کہتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ان کہ نمائندگی کبھی بھی مناسب طریقے سے نہیں کی ۔ لیکن نہیں کی کا مطلب یہ نہیں کہ آئندہ بھی کبھی نہیں کریں گے اور یہ کہ ہم امید ہی چھوڑ دیں

حکومتی سطح پر، آزاد کشمیر حکومت کے پاس کئی مواقع ہیں مسئلہ کشمیر کی نمائندگی کے لئے، اے جے کے ٹی وی ، اے جے کے ریڈیو ،کشمیرلبریشن سیل اور کشمیر کلچرل اکیڈمی ۔

اے جے کے ٹی وی پاکستان ٹی وی کا ہی ایک علاقائی اسٹیشن ہے اور اگرچہ اس کے مقاصد میں سے ایک مسئلہ کشمیر کی تشہیر بھی ہے لیکن وجود میں آنے کے دس سال بعد بھی یہ چینل کوئی ایک اچھا ڈراما، اچھا ٹاک شو، اور حد یہ کہ صرف ایک اچھا اور مقبولِ عام نغمہ تک بنانے سے قاصر ہے ۔

یہی حال آزاد کشمیر ریڈیو سٹیشن کا ہے کسی وقت میں یہ ریاست کی یکجہتی کی علامت سمجھا جاتا تھا اور سرحد کے دونوں طرف اس کے سامعین کی بڑی تعداد تھی، لیکن ایک تو ٹی وی چینلزکی بھرمار کی وجہ سے ریڈیو کی وقعت ویسے بھی کم ہوئی ہے دوسرا خود حکومت نے اس کو ایسے بے توقیر کیا کہ نہ صرف پروگراموں کا معیار گرا دیا، بلکہ اس کی استعداد بھی کم کر دی۔ اب حالت یہ ہے کہ آزادکشمیر ریڈیو مظفرآباد ایک محدود علاقے میں سنا جا سکتا ہے اور جب بجلی چلی جائے تو اس کی آواز فضاوں سے غائب ہو جاتی ہے۔

اگر توجہ دی جائے تو بہتری آ سکتی ہے کیوں کہ اچھی چیز جہاں بھی ہو رہی ہو اپنی جگہ بنا ہی لیتی ہے، مقبولیت حاصل کر ہی لیتی ہے ۔ اس وقت آزاد کشمیر ریڈیو پر بھی کوئی ایسا پروگرام نہیں چل رہا ۔ میرا فریم آف ریفرنس انٹرٹینمنٹ میڈیا کے ذریعے مسئلہ کشمیراور تحریک کشمیر کی تشہیر ہے اس لئے اچھا پروگرام سے مراد ایسا پروگرام ہے جو صحیح معنوں میں مسئلہ کشمیر اور تحریک کشمیر اور مقبوضہ وادی والے ہم وطنوں کے مسائل کی ترجمانی کسی بھی سطح پر کر سکے۔ پھر کشمیرلبریشن سیل ہے، اس ادارے کے مقاصد میں سے بھی ایک مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنا ہے، لیکن اس کا حال باقی اداروں سے بھی بدتر ہے، لیکن اس کی نوعیت چونکہ انٹرٹینمنٹ سے زیادہ اکیڈمک ہے جو فی الحال میرا موضوع نہیں ہے ۔

رہ گئی کشمیرکلچرل اکیڈمی، تو اس پرعائد ذمہ داری سب سے بھاری ہے۔ اس کے مقاصد کشمیر کی ثقافت کے فروغ کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کی فن کے ذریعے تشہیر بھی ہیں ۔ لیکن ان دونوں اداروں کو آنے والی ہرحکومت اپنے بندوں کے سرکاری روزگار کا بندوبست کرنے کے لئے استعمال کرتی ہے ۔

پھر آزاد کشمیر کی سول سوسائٹی ہے جو صرف فیس بک یا واٹس ایپ گروپس پر ایکٹو نظر آتی ہے، اس کے علاوہ کوئی اجتماعی کوشش سول سوسائٹی کی طرف سے بھی تاریخ میں کبھی نہیں کی گئی۔ اب سوال یہ ہے کہ سول سوسائٹی کر کیا سکتی ہے؟ سٹیج ڈراما، تھیٹر اور نمائشوں کے علاوہ ایسے کئی کام ہیں جو کئے جا سکتے ہیں مگرکبھی ہوئے نہیں ۔ لیکن نہیں ہوئے کا مطلب یہ نہیں کہ کبھی نہیں ہو سکتے ۔ جن دنوں کشمیر میں مسلح تحریک زوروں پر تھی ، کئی ایک عسکری تنظیموں نے بڑے اچھے نغمے تخلیق کئے ۔ لیکن مسلح تحریک کے ٹھنڈی پڑنے پر انہوں نے چپ سادھ لی ہے ۔

پھر انفرادی سطح پر بھی کوئی گلوکار ، کوئی فنکار ایسا نہیں جس نے کوئی ایسا قابل ذکر کام کیا ہو، جس کا حوالہ دیا جا سکے آزادکشمیر میں گلوکار بھی چند ہیں اور ان کے لئے بھی حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اگر ایم سی کیش ایک ٹرینڈ سیٹ کر سکتا ہے تو کیا آزاد کشمیر کا کوئی نوجوان ایسا نہیں کر سکتا؟

آزاد کشمیر کے گنے چنے چند اچھے شعرا ہیں جن میں سے زیادہ تر کی شاعری کا موضوع صنف نازک اور عشق و محبت ہی ہیں ۔ کچھ شعرا مثلا مرحوم نذیر انجم ، صابر آفاقی ، افتخار مغل ، شفیق الرحمان سابق پروفیسر اے جے کے یونیورسٹی ، طارق بٹ وغیرہ، جن کی زیادہ تر تخلیق سے مٹی کی محبت جھلک رہی ہوتی ہے ، اگر لبریشن سیل یا کلچرل اکیڈمی ان شعرا کے کام سے کشمیر سے متعلق چیزوں کوجمع کر کے شائع کریں تو یہ ایک بڑی خدمت ہوگی لیکن ہم آج بھی لہو گرمانے کے لئے دہائیوں پرانا ایک نغمہ میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن استعمال کر کے قومی فریضہ پورا کرتے ہیں۔

حکومت کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے اور افراد کے لئے اکثر تن تنہا یہ ذ مہ داری پوری کرنا ناممکن ہو جاتا ہے ،اس لئے سول سوسائٹی گروپس اوردیگر اداروں کو اس میدان میں سرگرم ہونے کی ضرورت ہے ۔

کوئی ایک ادارہ ایسا ہونا چاہئے جہاں سے آرٹ کے ذریعے ، پر امن طریقے سے پوری ریاست کی نمائندگی کی جا سکے ۔ اس سے نہ صرف مسائل کی بہتر تشہیر ہو سکتی ہے بلکہ کئی حصوں میں منقسم ریاست کے باشندوں میں اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دیا جا سکتا ہے ۔

جب گلگت کا کوئی شخص بھی وادی کشمیر کا درد اسی طرح لکھے گا جس طرح بشارت پیر لکھتا ہے ، جب آزاد کشمیر کا کوئی نوجوان بھی وادی میں بسنے والے اپنے دوست کو لگنے والے زخم کا درد اسی طرح گائے گا جس طرح ایم سی کیش کرتا ہے ، تو وادی میں پیغام جا سکے گا کہ ہم ایک ہیں ۔ پھر وادی والے بھی گلگت کے عوام کو ملنے والی سبسڈی کے چھن جانے پر احتجاج کریں گے ۔ عوام کو یکجا رکھنے کے لئے رابطوں کا ہونا بے حد ضروری ہے ، اور اس کے لئے انٹرٹینمنٹ میڈیا اور فن کی دنیا کی اہمیت بہت زیادہ ۔

آزاد کشمیراوراس کے عوام تقریروں میں خود کو تحریک کشمیر اور مقبوضہ وادی میں بسنے والے ہم وطنوں کا نمائندہ کہتے ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نمائندہ ہونے کہ ذمہ داری افراد نے پوری کی نہ اداروں نے، دیر ہو چکی ہے، لیکن اتنی نہیں کہ غلطیوں کا سدھار ممکن نہ ہو، اور پھر وہی کہ اب تک نہیں ہوا کا مطلب یہ نہیں کہ کبھی نہیں ہو سکتا ۔ بہت کچھ ہو سکتا ہے صرف بیدار ہونے کی دیر ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے