پیپلز پارٹی کے بانی ذولفقار علی بھٹو جنوری 1928 کو لاڑکانہ کے قریب گڑھی خدا بخش میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم بمبئی سے حاصل کی ۔1947 میں اعلی تعلیم کیلئے بیرون ملک چلے گئے۔1950 میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے پولٹیکل سائنس سے آنرز کی ڈگری حاصل کی ۔اس کے بعد وہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے آکسفورڈ چلے گئے ۔
تعلیم کی تکمیل کے بعد بار ایٹ لا کیلئے لنکران پہنچے ۔وطن واپسی پر کچھ عرصہ مسلم لا کالج کراچی میں دستوری قانون کے لیکچرر رہے۔
1953 میں سندھ ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔ 1957 میں بھٹو کی عملی سیاست کا آغاز ہوا جب انہوں نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی ۔1958 میں وہ بطور وزیر توانائی ایوب خان کی کابینہ میں شامل ہوئے۔ان کا شمار ایوب خان کی کابینہ کے کم عمر وزیروں میں ہوتا تھا ۔ انہوں نے انتہائی کم عمری میں اپنی قابلیت کا لوہامنویا ۔1962 میں وزیر خارجہ کا قلمدان سونپ دیا گیا ۔وزیر خارجہ کی حیثیت سے انہوں نے پہلی مرتبہ اقوام عالم میں مسئلہ کشمیر کو پرزور انداز میں اٹھا یا ۔
1965 کی جنگ کے بعد سویت یونین کی مداخلت سے پاک بھارت مذاکرات تاشقند میں ہوئے ۔ 1965 بھٹو بطور وزیر خا رجہ ایوب خان کے ہمراہ تھے ۔یہ مزاکرات پاکستان کے لئے بہت سود مند ثابت نہ ہوئے ۔کہاجاتا ہے کہ پاکستان نے جو میدان جنگ میں جیتا مذاکرت کی میز پر ہار دیا ۔ صدر ایوب دشمن کو وہ سب لوٹانے پر رضامند ہوگئے جسے ہمارے جوانوں نے خون کا خراج دے کر حاصل کیا تھااور پاکستان معائدے کی روح سے مجرم تصور کیاجانے لگا تھا ۔یہ سب بھٹو جیسے لیڈر کے لئے قابل قبول نہ تھا۔چنانچہ انہوں نے اسی معاھدے پر اختلافات کی بنیاد پر وزارت خارجہ سے استعفی دے دیا۔استعفے کے اس اقدام کو عوام کی طرف سے زبردست پذپرائی ملی ۔بھٹو کو ملنے والی عوامی پذیرائی دیکھ کر ایوب خان ان پر بیرون ملک منتقل ہونے کے لئے دباؤ ڈالتے رہے ۔ یہ خبرجب عوامی شاعر حبیب جالب تک پہنچی تو انہوں نے بھٹو کے نا م ایک نظم لکھی جس کا عنوان تھا ’’چھوڑ کے نہ جا‘‘۔
اس نظم کا آخری شعر میں قارئین کی نظر کرتا ہوں
اے ذولفقار تجھ کو قسم ہے حسین کی
کر احترامِ رسمِ کہن چھوڑ کے نہ جا
اس نظم کو ملنے والی زبردست عوامی پذپرائی نے بھٹو کو پاکستان میں رہ کر آمر کا مقابلہ کرنے پر مجبور کیا۔ چنانچہ30 نومبر 1967 کو انہوں نے اپنی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور ایوبی آمریت کے خلاف تحریک شروع کی ۔ذولفقار علی بھٹو کی سحر انگیز شخصیت نے بہت جلد عوام کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔
وہ بہت تھوڑے ہی عرصے میں عوام کی امیدوں کا مرکز بن گئے ۔انہوں نے پسے ہوئے مظلوم طبقے میں نئی روح پھونک دی۔ ایوبی آمریت کے خلاف یہ تحریک دن بدن زور پکڑتی گئی اور بالآخر آمر نے گھٹنے ٹیک دیے ۔ اب مرحلہ عام انتخابات کا تھا ۔بھٹو اسلام کو دین، جمہوریت کو سیاست، سوشلزم کو معیشت اور عوام کو طاقت کا سرچشمہ بنانے کا منشورلے کر انتخابی سیاست میں اترے اوربہت جلد چھا گئے ۔ اُن کی کرشماتی شخصیت نے ڈرائننگ روم کی سیاست کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا ۔ ان کے عوامی اندازِ سیاست کو عوام نے اس قدر پسند کیا کہ انہوں نے 1970کے پارلیمانی انتخابات میں پیپلز پارٹی کو مغربی پاکستان میں تاریخی فتح سے ہمکنار کیا ۔
فوجی حکمرانوں کی ہٹ دھڑمی کے باعث اقتدار عوامی نمائندوں کے سپرد نہ کیا گیا، جس کی وجہ سے سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہوا اور پاکستان تقسیم ہو گیا۔ 20 دسمبر 1971 کو باقی ماندہ پاکستان کا اقتدار بھٹو کو سونپ دیا گیا ۔
پاکستان پر یہ انتہائی مشکل وقت تھا ۔ دشمن یہ امیدیں لگائے بیٹھا تھا کہ بنگلا دیش کے قیام کے بعد پاکستان اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گا ۔ بھارتی جنرل نے یہ کہا تھا کہ ہم ہندوستان کے لوگوں کوایک اور تحفہ دیں گے یعنی مغربی پاکستان کو بھی توڑ دیں گے ۔ ایسے میں نئی سمت کا تعین بے حد ضروری تھا ۔ ایک بہادر لیڈر کی ضرورت تھی جو قوم کو سمیٹ سکتا ۔ قوم کو ناقابل تسخیر بنا سکتا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے یہ ذمہ داری بخوبی نبھائی ۔انہوں نے چند ہی ماہ میں نہ صرف سمت کا تعین کیا بلکہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی ریڈیکل اصلاحات کا آغاز کیا ۔ سب سے اہم مسئلہ جنگی قیدیوں کا تھا ۔ جنگ میں ہندوستان نے 93 ہزار پاکستانی فوجیوں کو جنگی قیدی بنا لیا تھا۔ دشمن پاکستانی فوجیوں پر جنگی جرائم کے مقدمات قائم کرنے کی دھمکیاں دے رہا تھا ۔
جنوری 1972 میں ذولفقار علی بھٹو نے مشرق وسطی اور آفریقہ کے 20 ممالک کا طوفانی دورہ کیا ۔ ان ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے سے پاکستان کے وقار کی بلندی میں مدد ملی اور بھارت سے مذاکرات میں اس کی پوزیشن مستحکم ہوئی ۔ بھٹو عوام کے اعتماد اور بین الاقوامی برادری کے تعاون سے 93 ہزار جنگی قیدیوں کی رہائی اور ساڑھے پانچ ہزار مربع میٹر زمین بھارتی قبضے سے واپس لینے میں کامیاب ہوئے ۔وطن واپسی پر ان کا تاریخی استقبال ہوا۔اس کے بعد بھٹو نے تمام تر کوششیں آئین سازی کے لئے صرف کردیں اور تین سال کی کوششوں کے بعد بلآخر وہ ملک کو ایک متفقہ آئین دینے میں سرخرو ہوئے ۔
ملک میں جمہوریت کے استحکام ، تسلسل اور پسے ہوئے طبقات کو حقوق دینے کے لئے آئین پاکستان کی متفقہ منظوری بلا شبہ ایک تاریخ ساز کارنامہ تھا ۔
بھٹوکے دور میں ہونی والی اصلاحات میں بھاری صنعتوں کو قومی تحویل میں لینا، بنکوں، انشورنس کمپنیوں اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے کر انہیں جاگیرداروں اورسرمایہ داروں کے چنگل سے آزاد کرنا ۔اس کے علاوہ زرعی اصلاحات کا آغاز، عوام کو سستی ٹرانسپورٹ اور خوارک سمیت بے شمار دوسری سہولیات کی فراہمی ۔ بنیادی مراکز صحت کا قیام ، اور غریبوں کے لئے علاج کی مفت سہولت ۔تعلیم اور علاج کے لئے بجٹ کا 43 فیصد مختص کرنا۔پاکستانی عوام کو شناخت دینے کے لیے قومی شناختی کارڈ بنوانے کے لیے قانون سازی اور دیگر اصلاحات شامل ہیں ۔
اس کے علاوہ بھٹو کی حکومت کے سنہری کارناموں میں کراچی میں ایٹمی بجلی گھر کا قیام ۔اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد ۔اوپن یونیورسٹیاں ایجاد کرنا ۔شاہراہ قراقرم کی تعمیر ۔پورٹ قاسم کی تعمیر ۔ چشمہ اور دیگر بیراج کی تعمیر ۔ فرانس اور کینیڈا کے ساتھ دو ایٹمی معاہدے کرنا ۔ وزارت مذہبی امور کا قیام ۔ 17 لاکھ ایکڑ زمین بے زمین ہاریوں میں بانٹنا ۔ واضح کشمیر پالیسی کا اعلان (کشمیر کو آزاد کرانے کیلئے ہزار سال تک لڑنے کا اعلان کرنا) ۔ لیبر پالیسی ، فیڈریفارمز ، نیشنل بک فانڈیشن ، این ڈی ایف سی ، قائد اعظم یونیورسٹی کا قیام ۔اور دیگر کا رنامے شامل ہیں ۔اس کے علاوہ مستقبل پر نظر رکھنے والے بھٹو نے مستقبل کی ضروریات سے ہم آہنگ پاکستان سٹیل، ہیوی میکینکل کمپلیکس اور دیگر اہم منصوبے شروع کیے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے شراب کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی ۔جمعہ کی چھٹی کا اعلان کیا اور قادیانیوں کو اقلیت قرار دے کر دائرہ اسلام سے خارج کردیا ۔
بھٹو کی فہم و فراست کی وجہ سے تیسری دنیا کے 77 ممالک نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا اور پاکستان کو تیسری دنیا کا چیئرمین نامزد کیا گیا۔
وہ شخص جیئے گا تا ابد ، وہ جسم اگرچہ فانی ہے
وہ ہم میں نہیں ہے آج مگر ، وہ اپنے کل کا بانی ہے
ظاہر ہے تاریخی کارنامے سرانجام دینے والا بھٹو دنیا کے لئے کہاں قابل قبول تھا ۔ ایک سازش تیار کی گئی ۔ بہت سی مختلف نظریات کی حامل سیاسی اور مذہبی جماعتوں پر مشتمل ایک غیر فطری اور تضادات سے بھر پور اتحاد تشکیل پایا ۔ اس قومی اتحاد نے انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف تحریک چلائی ۔ لیکن جو تحریک چلائی اس کا نام ’’ تحریک نظام مصطفی ‘‘ رکھا گیا ۔
تحریک کو مذہبی نام دینے کا مقصد عوامی پذیرائی حاصل کرنا اور تحریک کو لمبے عرصے تک چلائے رکھنا تھا ۔اس احتجاج کو بنیاد بنا کر فوجی آمر جنرل (ر) ضاء الحق نے 5 جولائی 1977 کو اُن کی حکومت ختم کی ۔ انہیں 3 ستمبر کو نواب محمد احمد قصوری کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور ان پر قتل کا مقدمہ چلایا گیا ، پھر سلطانی گواہ پر عوامی لیڈر کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی ۔
سپریم کورٹ کے چار ججوں نے پھانسی کے حق میں جبکہ تین نے مخالفت میں فیصلہ سنایا ۔ اقتدار کی ہوس میں اندھے فوجی آمر نے دنیابھر کی اپیلیں مسترد کر تے ہوئے دنیا کے عظیم لیڈر کو آج ہی کے دن تختہ دار پر لٹکا دیا ۔