بے بی بکس میں ایسا کیا

تقریباً تین سال پہلے بی بی سی میگزین نے ’فن لینڈ کے بےبی باکس‘ کے بارے میں رپورٹ کی تھی۔ جس میں پہلی بار والدین بننے والوں کے بچوں کے لیے ضروریات کی چیزیں فراہم کی جاتی ہیں۔
اس کٹ میں کپڑے، بیڈ شیٹ اور کھلونے ہوتے ہیں۔ یہ رپورٹ وائرل ہوئی اور 18 مہینوں میں تقریباً 1 کڑوڑ لوگوں نے اسے پڑھا۔ اب اس باکس کا خیال پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔

یہ روایت 1930 کی دہائی سے شروع ہوئی تھی۔ اس باکس میں ایک گدا بھی ڈالا جاتا ہے۔ اس باکس کی وجہ سے فن لینڈ میں بچوں کی شرح اموات دنیا میں سب سے کم ہے۔ اس باکس کی مقبولیت اس وقت بھی ہوئی جب فن لینڈ کی حکومت نے کیمبرج کے ڈیوک آف ڈچز کو یہ باکس اس وقت پیش کیا جب ان کا پہلا بچہ پیدا ہونے والا تھا۔

اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد فن لینڈ میں تین اشخاص جو والد بھی تھے نے ایسے باکس مہیا کرنے کا کاروبار شروع کیا جو کے دنیا میں کہیں بھی پہنچا دیتے ہیں۔ امریکہ میں بھی دو خواتین نے یہ کام شروع کیا ہے۔ یہ کام برطانیہ میں بھی کیا جاتا ہے اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ہوتا ہو گا۔ اس باکس میں جو چیزیں دی جاتی ہیں اکثر مقامی ضروریات کے مطابق ہوتی ہیں۔ جیسے انفیکشن کا خاتمہ، دم گھٹنے کو ختم کرنا یا والدین کے بسترے سے نکل کر الگ سونا۔
لیکن اس کا سب سے اہم مقصد یہ ہے کہ ماؤوں کوان کے بچوں کی پیدائش سے پہلے ڈاکٹر کے پاس جانے کی حوصلہ افزائی ہو۔ اس سے یہ ہو گا ایڈز زدہ ماؤں کا بچہ پیدا کرنے کو دوران مرنے کا امکان کم ہو گا اورماں کے بچے کو ایڈز لگنے سے بچائے گا۔

بچوں کی اموات صرف ترقی پزیر ممالک کا ہی مسلہ نہیں ہے
ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک ڈاکٹر طلبہ کا خیال ہے کہ اس باکس کو جنوبی ایشیا کی ضروریات کے مطابق بنایا جائے۔ اس باکس کا نام ’برکت باکس ‘رکھا گیا ہے اور اب انڈیا میں دیہاتی علاقے کے ایک ہسپتال میں مہیا کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔

اس باکس میں بچے کے پیدا ہونے کے فوراً بعد صفائی کرنے کا کٹ ہے تاکہ انفیکشن ہونے سے بچایا جائے اور ملیریا سے بچنے کے لیے سونے کے دوران ایک مچھ جالی بھی دی گئی ہے۔ لیکن بچوں کی اموات صرف ترقی پزیر ممالک کا ہی مسلہ نہیں ہے۔

اب لندن میں ایک پائلٹ بےبی باکس کوین شارلٹس اینڈ چیلسی ہسپتال میں شروع کیا گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس کی کامیابی کے لیے اس کا تعلمی جزو سب سے اہم ہے۔
اس پروگرام کو چلانے والی گائناکولوجسٹ کیرن جوعاش کا کہنا ہے کہ ’ہم سوچتے ہیں کہ کیا ہر کسی کے پاس بچے کے لیے ایک علیحدہ بستر لینے کے لیے پیسے ہوں گے جب کہ حقیقت کچھ اور ہے۔ ‘ اس باکس سے یہ ممکن ہو گا کہ ماں بچے کو اپنے ہی کمرے میں سلا سکے گی جس سے بچے کے ساتھ تعلق بہتر ہوں گے۔
کینیڈا میں اس پروگرام کو نئے والد بننے والے مردوں کے لیے بھی بنایا گیا ہے۔ اس میں معلومات کو گاڑی کے سمجھنے سے مماثلت دی ہے۔ لیکن ہر کوئی اس باکس کا ہرفن مولا نہیں بن سکتا۔
بورماؤتھ یونوسٹی کے ایک پروفیسر کولن پرچحارڈ جنھوں نے بچوں کی اموات کے بارے میں پڑھا ہے کا کہنا ہے کہ اس باکس کا محدود فائدہ ہے اور اموات کو ختم کرنے کے لیے تعلیم اور معلومات کو بہتر بنانا والدین کا سگرٹ نوشی ختم کرنا اور بچے کی پیدائش سے پہلے حفاظت کو بہتر کرنا ان کی نظر میں زیادہ اہم ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے