میں نہیں جانتا کہ جب کوئی امریکی عہدے دار اپنے قلب وذہن سے بات کرتا ہے تو عرب کیوں مشوش اورغیظ وغضب کا شکار ہوجاتے ہیں ۔صدر براک اوباما کے اٹلاٹنک میگزین کے ساتھ حالیہ انٹرویو کے بعد کچھ ایسا ہی معاملہ پیش آیا ہے۔
درجنوں لکھاریوں نے(ان میں سے بیشتر نے شاید اس میگزین کا کبھی نام بھی نہیں سنا ہوگا) فوراً اوباما کے الفاظ پر خامہ فرسائی شروع کردی۔بعض نے سوشل میڈیا پر نسل پرستانہ تبصروں سے بھی گریز نہیں کیا۔بعض نے انھیں باور کرایا ہے کہ خلیج کی امریکا کے ساتھ تزویراتی شراکت داری ہے اور ان کے درمیان تاریخی اتحاد قائم ہے۔چند ایک تو ہسٹریائی کیفیت میں مبتلا تھے اور ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے اپنے تاریخی اتحادیوں کو کیوں چھوڑ دیا ہے۔
ہم کتنے بھولے بھالے اور سادہ لوح ہیں اور ہمیشہ ایسے ہی واقع ہوئے ہیں۔بین الاقوامی تعلقات میں کوئی مستقل دوست اور دشمن نہیں ہوتے ہیں۔امریکا کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔اس نے ہمیشہ سے اپنے مفادات کو مقدم رکھا ہے۔وہ اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ امریکا کے لیے اب اپنے مفادات پر نظرثانی کا وقت آگیا ہے۔چنانچہ انھوں نے ان جگہوں کا انتخاب کیا ہے جہاں اقتصادی ترقی کے مواقع اور نسبتاً امن ہے اور یہ جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک ویت نام ،کمبوڈیا،تھائی لینڈ ،جنوبی کوریا، فلپائن، سنگاپور، ملائشیا اور انڈونیشیا ہیں اور یہیں کاروباری مواقع ہیں۔
اس خطے میں وہ اپنے سابقہ دشمن ایران کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ایرانی رجیم کے سخت گیر تو امریکا کے ساتھ سلسلہ جنبانی شروع کرنے کے مخالف ہیں لیکن ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو ڈالروں کی تلاش میں ہیں۔دولت کی زبان بولتی ہے۔ایرانیوں کی خطے میں گڑبڑ کی کارروائیوں کے باوجود امریکا بڑی چابک دستی سے اس سب کچھ کو نظرانداز کردے گا۔
اور مہربانی فرما کر اسرائیل کو بھی فراموش نہ کیجیے۔ کم وبیش روزانہ ہی صہیونی دہشت گرد معصوم بچوں کو قتل کررہے ہیں مگر انھیں امریکا میں صدارتی امیدوار اور میڈیا کا ایک بڑا حصہ تقدس مآب بنا کر پیش کررہا ہے۔
اوباما انتظامیہ اور وائٹ ہاؤس میں 20 جنوری 2017ء کو داخلے کے منتظر حضرات خلیجی ریاستوں کا سرکاری اور شخصی سطح پر ٹھٹھا اڑا رہے ہیں۔ان پر طنز کے تیر برسا رہے ہیں۔میڈیا میں یہ تصویرکشی کہ ہم اپنی سلامتی کے لیے تیل کا تبادلہ کرتے ہیں،میرے لیے تو بہت ہی سوہانِ روح ہے۔
چہ جائیکہ ہم اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں،ایران سے عالمی طاقتوں کے جوہری معاہدے کے بعد کی صورت حال سے نمٹنے اور بعد ازتیل معیشت کے لیے کوئی تیاری کریں،ہم نے خود کو زبانی جمع خرچ اور افسوس اور مایوسی کے اظہار تک محدود کررکھا ہے۔ہم اس پر کف افسوس مل رہے ہیں کہ ہم پر تنقید کیوں کی جارہی ہے،ہمیں نظرانداز کیوں کردیا گیا ہے؟ جبکہ امریکا اپنی خارجہ اور اقتصادی پالیسیوں کو نئے سرے سے ترتیب دے رہا ہے۔
اوباما کے بیانات پر مضمون پر مضمون لکھے جارہے ہیں مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اوباما اب امریکا میں مشکل سے ہی شہ سرخی بنتے ہیں۔یہ کلنٹن ،کروز ،سینڈرز اور ٹرمپ ہیں جو خبروں میں چھائے ہوئے ہیں اور ٹیلی ویژن کا بیشتر وقت بھی انہی کی نذر ہوتا ہے۔
یہ سیاست دانوں کی ایک نئی نسل ہے جن کے لیے ماضی تو لد چکا۔روزویلٹ ماضی کی ایک بھولی بسری یاد رہ گئے ہیں اور مستقبل اس کا ہے جس کے نزدیک امریکا کے مفادات مقدم ہیں۔
ہم اب ان کی راڈار سکرین پر ایک دھندلا سا ذرہ رہ گئے ہیں تو پھر ہم کیا کرسکتے ہیں؟ہمیں سب سے پہلے اپنی معیشت کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے،معاشرتی تبدیلی روبہ عمل لانی چاہیے۔لوگوں کو (فیصلہ سازی کے عمل میں) شریک کیا جانا چاہیے اور نئی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے منطقی انداز میں آگے بڑھنا چاہیے۔
ہمارے لوگوں کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ ان کی سکیورٹی کا انحصار امریکا کے ساتھ اتحاد پر نہیں ہے بلکہ ایک مضبوط اور ترقی کے لیے آگے بڑھتے معاشرے پر ہے۔انھیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ہم مغرب کے طفیلیے اور اس کے رحم وکرم پر نہیں ہیں بلکہ ایک خودمختار قوم ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم تیزی سے تبدیل ہوتی مگر پیچیدہ دنیا کی حقیقتوں کا ادراک کریں اور جوہری تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی حکمت عملیاں وضع کریں۔