چیچہ وطنی کی ادبی محفلیں کہاں گئی

کسی بھی معاشرے میں ادبی اور سماجی تنظیمیں جمالیاتی ذوق کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ افراد کی شخصیت اور تعمیر میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔

کسی علاقے کی سماجی اور ادبی تاریخ علاقے کی تاریخ کا اہم ترین حوالہ ہوتی ہے۔

تحصیل چیچہ وطنی نے کئی ادبی شخصیات کو جنم دیا جن کی آبیاری اور تربیت میں ادبی تنظیموں کا اہم کردار رہا ہے۔

آج شہر اور علاقے کی ادبی تصویر دھندلا گئی اور مقامی ادب اور ادیبوں کی رہنمائی کرنے اور انہیں ملک بھر میں متعارف کروانے والی تنظیمیں کاغذات کی حد تک اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

ماہر تعلیم اور نامور شاعر محمود احمد محمود بتاتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آغاز میں چیچہ وطنی شہر کو آباد کرنے والی شخصیات میں کرم الٰہی عامل صاحبِ طرز ادیب تھے جنہوں نے اپنے طلباء اور چند نوجوانوں کی مدد سے شہر میں ادب کا چراغ جلایا۔

"سنہ 1983ء میں انکی وفات کے بعد بزم فروغ ادب چیچہ وطنی کو ادریس قمر نے زندگی اور تازگی بخشی۔

انہوں نے کئی ملکی اور غیر ملکی شہرت کی حامل ادبی شخصیات سے علاقے کے ادیبوں اور شاعروں کو متعارف کروایا۔

"90ء کی دہائی میں گئو شالہ میں پاکستان آرٹ اکیڈمی قائم ہوئی جس کے روح رواں بہزاد جاذب نے ایک عشرہ تک نوجوانوں کی مدد سے ادب کے فروغ کے لیے کام کیا۔

محمود احمد کہتے ہیں کہ نئی صدی کے آغاز میں لٹریری یوتھ فورم بنائی گئی۔

اس پلیٹ فارم سے تقریبات کے ذریعے "سماجی شعور کی بیداری” کے لیے ممبران اور عہدے داران مصروف عمل رہے۔

"اس دوران چیچہ وطنی میں "چوپال”، "قلم قبیلہ”، "بزم اقبال” اور "فکر ادب” جیسی تنظیمیں وجود میں آئیں جو اپنا نقش تادیر قائم نہ رکھ سکیں۔

"ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں تمام ادبی تنظیموں کی خاموشی سے نو آموز لکھاریوں اور شعر و ادب سے شغف رکھنے والے طلباء و طالبات کو رہنمائی کے لیے کوئی پلیٹ فارم میسر نہیں ہے۔

علم و ادب کے فروغ سے دہشت گردی اور عدم برداشت کے رویوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

"منیر ابن رزمی”عدنان بشیر کا شمار ملک کے معروف نوجوان شعراء میں ہوتا ہے جو پنجاب یونیورسٹی شعبہ اردو کے پی ایچ ڈی سکالر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بڑے شہر چھوٹے شہروں کو ختم کرتے جا رہے ہیں۔

لاہور، ملتان اور راولپنڈی پنجاب کے بڑے ادبی مراکز سمجھے جاتے ہیں۔

"اکثر شاعر ادیب اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ نامور افراد کا تعلق چھوٹے شہروں سے ہے جو مواقع کی تلاش میں بڑے مراکز میں جا کر قیام پذیر ہو جاتے ہیں اور چھوٹے شہروں میں کسی بھی شعبہ میں آگے بڑھنے کے مواقع آنے والے وقت کے ساتھ ساتھ مزید کم ہوتے جا رہے ہیں۔

"عدنان بشیر کہتے ہیں کہ تیز رفتار ترقی اور ذرائع ابلاغ کی بدولت سماجی اور ادبی تقریبات کا انعقاد کم ہوا ہے تاہم بڑے شہروں میں تواتر کے ساتھ ادبی اور تنقیدی محافل برپا ہوتی ہیں جن میں ادیبوں، طالب علموں اور شعرو ادب سے تعلق رکھنے والے افراد شرکت کر کے علمی و ادبی پیاس بجھاتے ہیں۔

ریٹائرڈ پروفیسر منیر ابن رزمی کہتے ہیں کہ ملکی افق پر چمکنے والے اکثر نامور ادبی ستاروں کا تعلق چھوٹے شہروں سے ہے تاہم انہیں ان کا جائز مقام اور شہرت بڑے شہروں میں جا کر ہی نصیب ہوئی۔

"چھوٹے شہر گئے وقتوں میں تربیت گاہ کا کام کرتے تھے لیکن معاشی دوڑ میں ادب و ثقافت کے فروغ کو فضول کام سمجھتے ہوئے لوگوں نے اس سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔

"منیر ابن رزمی کے مطابق بات چیت، مکالمہ اور باہمی میل جول میں کمی کی وجہ سے معاشرے میں عدم برداشت اور تشدد پسندانہ رویوں نے فروغ پایا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ شاعر، ادیب، صحافی اور اہل علم کا فرض ہے کہ وہ مثبت معاشرتی سرگرمیوں کو فروغ دیں اس مقصد کے لیے ادبی اور سماجی تنظیموں کو فعال بنانا ضروری ہے۔

اس کام کے لیے انتظامیہ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ ادب اور فن کی حوصلہ افزائی کریں۔انہوں نے بتایا کہ 80ء کی دہائی میں سابق ممبر بورڈ آف ریونیو شیخ محمد سعید اور سنہ 2000-1999ء میں موجودہ سیکرٹری اوقاف پنجاب نیر اقبال چیچہ وطنی میں اسسٹنٹ کمشنر تعینات رہے۔

جن کی ذاتی دلچسپی سے چیچہ وطنی میں متعدد تقاریب منعقد ہوتی رہی جس سے شہریوں اور انتظامیہ میں بہترین تعلقات استوار ہونے کے ساتھ ساتھ مقامی ادبی تنظیمیں بھی فعال تھی۔

"علم و ادب کے فروغ سے دہشت گردی اور عدم برداشت کے رویوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

"میمونہ لطیف مقامی نجی کالج کی طالبہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں شاعری اور ادب سے لگاؤ ہے اور وہ اس کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہتی ہیں تاہم انہیں کوئی مناسب پلیٹ فارم میسر نہیں ہے۔جاوید انصاری ادبی تقریبات کے شائق نوجوان ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شہر میں ہونے والی ادبی محافل میں تمام مٍکاتب فکر کے لوگ شرکت کرتے تھے جس سے مذہبی اور سماجی ہم آہنگی پیدا ہوتی تھی۔

"گزشتہ چند سالوں سے ادبی تنظیمیں فعال نہ ہونے کی وجہ سے علاقہ معاشرتی جمود کا شکار نظر آتا ہے۔”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے