پاناما پیپر کو منظر عام پر لانے میں کس پاکستانی صحافی سے مدد لی گئی؟ اس کی طرف ہم بعد میں آتے ہیں لیکن ایک برس پہلے جرمنی کے مشہور اخبار ’’زوڈ ڈوئچے سائٹُنگ‘‘ کے صحافی باسٹیان اوبر مائر کو کسی نامعلوم شخص نے ایک میسیج کیا۔ اس شخص نے اپنا نام ٹنڈُو بتایا اور کہا کہ اس کے پاس بہت زیادہ ڈیٹا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ آپ اسے منظر عام پر لے کر آئیں۔
باسٹیان اوبر مائر نے اپنے ساتھی صحافی فیڈرک اوبر مائر سے بات کی۔ یہ دونوں جرمن اخبار کے انوسٹیگیٹو ڈیپارٹمنٹ سے منسلک ہیں۔ زوڈ ڈوئچے سائٹنگ جرمن صوبے باویریا کا پہلا جرمن اخبار ہے اور روزانہ اس کی پندرہ لاکھ کاپیاں فروخت ہوتی ہیں۔ باسٹیان نے گزشتہ رات اپنا پہلا انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی تک نہیں جانتے کہ ڈیٹا فراہم کرنے والا نامعلوم شخص کون ہے؟ اس نامعلوم شخص نے گیارہ ملین سے زائد دستاویزات پر مشتمل ڈیٹا ان کے حوالے کیا جبکہ جرمن حکومت کو اس ڈیٹا کا کچھ حصہ دو سال پہلے ہی مل چکا تھا لیکن وہ بہت محدود تھا۔
فیڈرک کہتے ہیں کہ ان کے لیے سب سے مشکل مرحلہ معلومات کو خفیہ رکھنا تھا۔ وہ روزانہ آفس جاتے تھے، ان کے قریبی دوست ان سے پوچھتے تھے کہ تم دونوں کیا کر رہے تو انہیں ہر کسی کو بس یہ بتانا ہوتا تھا کہ کچھ خاص نہیں۔ ان دستاویزات کا جرمن اخبار زوڈ ڈوئچے سائٹنگ کے ایڈیٹر انچیف کے صرف چند لوگوں کو ہی علم تھا۔
جس کمرے میں یہ دونوں صحافی کام کرتے رہے، اس کا انٹرنیٹ مکمل ختم کر دیا گیا تھا اور اس کمرے میں صفائی کرنے والے کو بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ اس مقصد کے لیے ایک مخصوص اور بہتر کمپیوٹر بنوایا گیا۔ یہ کمپیوٹر آج تک انٹرنیٹ سے منسلک نہیں گیا گیا تاکہ دنیا کی کوئی خفیہ ایجنسی اس تک رسائی حاصل نہ کر سکے۔ اس کمرے میں ایسے آٹو میٹک لاک لگائے گئے، جو صرف مخصوص لوگ ہی کھول سکتے تھے۔ ان صحافیوں کو مخصوص موبائل نمبرز فراہم کیے گئے تاکہ وہ صرف انہی کے ذریعے بات کریں۔ ایک سال کے دوران وہ راستے بھی مخصوص کر دیے گئے، جن کے ذریعے اپنے گھر تک پہنچتے۔
اس کے بعد سب سے مشکل مرحلہ ان دستاویزات کو کمپیوٹر میں سرچ ایبل بنانا تھا، یعنی گوگل کی طرح آپ کوئی بھی لفظ ٹائپ کریں تو اسے سے منسلک دستاویزات سامنے آ جائیں۔
ان دونوں صحافیوں نے دیکھا کہ پاناما پیپرز میں پوری دنیا کے بااثر لوگ شامل ہیں اور وہ تنہا پوری دنیا میں ریسرچ اور تحقیق نہیں کر سکتے اور یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ دوسرے ملکوں کی اسٹوریاں اسی طرح اندھرے میں رہیں۔
انہوں نے تحقیقی صحافت کے حوالے سے دنیا کی مشہور ترین صحافتی تنظیم ’’آئی سی آئی جے‘‘ سے رابطہ کیا۔ دنیا کے 65 ملکوں کے 190 سے زائد صحافی اس تنظیم کا حصہ ہیں جبکہ یہ تنظیم بھی دنیا کی چند بڑی اخبارات کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔
پاکستان سے عمر چیمہ سن دو ہزار چودہ سے اس کا حصہ ہیں اور انہوں نے پاناما پیپرز کے حوالے سے بھی کام کیا۔ ان کے علاوہ سن دو ہزار تیرہ سے عامر لطیف اور احمد رشید بھی اس تحقیقی ادارے کے رکن ہیں۔ جاوید چودھری صاحب نے اپنے سات تاریخ کے کالم میں لکھا ہے کہ ان کو گزشتہ برس ہی پتہ چل گیا تھا کہ اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ نواز خاندان بھی اس سے لا علم نہیں تھا۔ (جرمن اخبار کے ایڈیٹر انچیف وولف گانگ کراخ کا دعویٰ ہے کہ اس تحقیق میں شامل دنیا کے چار سو صحافیوں نے اس کو صیغہ راز میں رکھا لیکن جاوید چودھری کو دعوے کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہوا۔)
صحافت کے حوالے سے تحقیقی تنظیم آئی سی آئی جے نے معلومات اکٹھی کرنے اور اسے دنیا کے تقریباﹰ چار سو صحافیوں تک پہنچانے کے لیے مخصوص نظام وضع کیا اور سب پر یہ واضح کیا کہ کسی ایک صحافی نے بھی بات لِیک کی تو مکمل منصوبہ خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد مخصوص صحافیوں کے مابین لندن، واشنگٹن اور میونخ میں بھی ملاقاتیں ہوئیں۔
باسٹیان کے مطابق اس دوران بھی مخصوص معلومات صرف مخصوص صحافیوں تک ہی محدود رہیں اور ہمارے اخبار سمیت کسی ادارے کے صحافیوں کو بھی ان کے اس پروجیکٹ سے متعلق معلومات نہیں تھیں۔ اس جرمن اخبار کے ایڈیٹر انچیف وولف گانگ کراخ کہتے ہیں کہ شاید ابھی بھی بہت سی معلومات شائع نہ کی جا سکیں۔ ان کے مطابق کئی بڑے ملکوں کی خفیہ ایجنسیاں بھی ایسی کمپنیاں چلا رہی ہیں اور مختلف ملکوں میں فنڈنگ، ہتھیاروں کی خرید و فروخت انہی کمپنیوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔
ایڈیٹر انچیف وولف گانگ کراخ کے مطابق وہ کسی بھی حکومت کو ڈیٹا فراہم نہیں کریں گے اور نہ ہی اسے مکمل آن لائن شائع کیا جائے گا کیوں کہ وہ صحافت کو ملکی اداروں سے الگ رکھنا چاہتے ہیں۔
پاناما پیپرز سے کیا فرق پڑے گا؟ کیا ٹیکس فری علاقوں کا خاتمہ ہو سکے گا ؟
تجزیہ کاروں کے مطابق ایسا ناممکن ہے۔ دنیا کے طاقتور سیاستدان، کمپنیاں اور بینک اس میں ملوث ہیں۔ خود قوانین بنانے والے لوگ ان میں ملوث ہیں۔ کوئی نتیجہ صرف اسی وقت نکل سکتا ہے اگر عوام اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اگر عوام نے احتجاج نہ کیا تو کچھ بھی نہیں بدلے گا، قصوروار بینک بھی ہیں اور سیاستدان بھی جبکہ خفیہ ایجنیساں ان معاملات سے پہلے ہی آگاہ ہیں۔ ماضی کی طرح ان کا بھی کچھ دیر چرچا رہے گا اور بڑے سرمایہ کار پھر خاموشی سے ٹیکس چوری کا کام شروع کر دیں گے۔
باسٹیان اوبر مائر حیران ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ جرمن اخبار کی طرف سے پیپرز آن لائن کیے جانے سے تیس منٹ پہلے ٹیسٹنگ فیز کے دوران ہی ایڈروڈ سنوڈن نے اس بارے میں ٹویٹ کر دی تھی۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ایڈروڈ سنوڈن بھی کسی نہ کسی طریقے سے اس معاملے سے آگاہ تھے۔