غربت کی زیبِ داستان

بزنس ڈکشنری کے مطابق غربت اُس حالت کو کہتے ہیں جس میں لوگوں کو خوراک، رہائش اور لباس کی بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی ہو- بزنس ڈکشنری غربت کی مندرجہ ذیل دو اقسام بیان کرتی ہے:

قطعی غربت اور غیر قطعی غربت-

قطعی غربت سے مراد کم از کم جسمانی زندگی کو برقرار رکھنے کیلیئے درکار کم ازکم غذائی ضروریات کی عدم دستیابی- جبکہ غیر قطعی غربت سے مراد حکومتی متعین کردہ کمتر ترین معیارات زندگی کی عدم دستیابی- ورلڈ بینک کے مطابق اگر کسی انسان کی آمدنی 125 روپے یومیہ سے کم ہو تو اسے انتہائی غریب اور اگر 200 سو روپے یومیہ سے کم ہو تو درمیانہ غریب تصور کیا جائے گا. دنیا بھر میں اِس وقت 1.5 بلین لوگ ورلڈ بینک کی تعریف کے مطابق انتہائی غربت کا شکار ہیں اور 2.8 بلین لوگ ورلڈ بینک کی تعریف کے مطابق درمیانی غربت کا شکار ہیں- ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ دنیا کے 7.3 بلین لوگوں میں 1.5 لوگ بلین انتہائی غربت اور 2.8 بلین لوگ درمیانی غربت کا شکار ہیں-

اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ہولناک غربت کیوں پائی جاتی ہے؟ کیا دنیا کے 7.3 ارب لوگوں کو دینے کیلیئے خوراک، رہائش اور لباس کے وسائل دستیاب نہیں ہیں؟ کیا دنیا کی آبادی کو کم از کم جسمانی زندگی برقرار رکھنے کیلیے درکار کم ازکم غذائی ضروریات بھی مہیا کرنا ممکن نہیں ہیں؟ کیا دنیا کی آبادی کو کمتر ترین معیارات زندگی دینا بھی ناممکن ہے؟ کیا دنیا کی آبادی کو یومیہ 2 سو روپے مہیا کرنا بھی ناممکن ہے؟

اب آئیے اصل حقائق کی طرف، صرف 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے دنیا بھر کی بھوک کا مکمل خاتمہ کیا جا سکتا ہے، جبکہ اس سے کہیں زیادہ سرمایہ انسان کو قتل کرنے کیلئے اسلحہ کی خریداری اور جنگوں پہ خرچ کیا جاتا ہے- آپ حیران رہ جائیں گے کہ ہر سال اتنی غذا پیدا ہوتی ہے جو دنیا کے ہر انسان کو موٹا کر دینے کے لئے کافی ہے۔ ایک بالغ کے لئے مجوزہ روزانہ کیلوریز تقریباً 2100 ہیں جبکہ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو موجودہ زرعی پیداوار دنیا کے ہر انسان کو 2720 کیلوریز باآسانی فراہم کر سکتی ہے- اِن کیلوریز کے علاوہ وافر مقدار میں پھل، انڈے، دودھ، سبزیاں، گوشت اور ڈرائی فروٹ فراہم کیا جاسکتا ہے- اِس وقت عالمی سطح پر اتنی خوراک پیدا کی جا رہی ہے کہ ہر انسان صحتمند و توانا زندگی گزار سکتا ہے- پوری دنیا کی آبادی کی غذائی ضروریات سے ڈیڑھ گنا زیادہ غذا پیدا کی جارہی ہے- ہم اس وقت جو خوراک اُگا اور پیدا کر رہے ہیں وہ 10 ارب انسانوں کی غذائی ضروریات باآسانی پوری کر سکتی ہے- اِس کرہ عرض پر خوراک کی مثبت ممکنات اور زرعی وسائل کی کسی قسمی کمی نہیں ہے۔ حیران کن اعدادوشمار کے مطابق صرف افریقہ کے قابل کاشت رقبہ پہ جدید زرعی سائنس کی بدولت پوری دنیا کی انسانی آبادی کی خوراک کا بندوبست ممکن ہے- زرعی سائنس کے جدید طریقہ ہائے کاشتکاری “ہائیڈرو پونکس” کے زریعے ضروری غذائی اجزاء سے بھرپور پانی کے محلول میں پودے اگائے جاتے ہیں۔ آخری تجزئے میں “ہائیڈرو پونکس” کی تکنیک کی بدولت 10ارب لوگوں کی غذائی ضروریات کرہ ارض کے صرف 0.4 فیصد خشک رقبے سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔

اگر دنیا کے ہر انسان کو 1000 مربع فٹ رہائشی جگہ دی جائے تو دنیا کے 7.3 بلین لوگوں کو محض امریکی ریاست ٹیکساس میں آباد کیا جا سکتا ہے- ایک ماڈل شہر کے 45 فیصد رقبے پہ دس لاکھ لوگ اور باقی کے 55 فیصد رقبہ توانائی، پانی اور خوراک کی پیداوارکے ساتھ ساتھ تعلیم، علاج، ریسرچ اور تفریح کے لئے استعمال کیا جائے تو منصوبہ بندی سے بسائے گئے ایسے صرف 10000 شہر 10 ارب لوگوں کو رہائش کے ساتھ ساتھ دوسری تمام تر ضروری سہولیات فراہم کر سکتے ہیں- ایسے ماڈل شہر کا رقبہ 60 مربع کلومیٹر ہوگا- ایسے سارے اعدادوشمار اور ماڈل یہ بتاتے ہیں کہ مناسب منصوبہ بندی کی بدولت انسانی آبادی کو ایسی آرام دہ رہائش گاہیں مہیا کی جا سکتی ہیں جنکا یورپ کی سابقہ فلاحی ریاست کے عوام تصور بھی نہیں کر سکتے-

قدرتی زرائع اور جدید سائنس کی مدد سے انسان کی لباس کی ضروریات کو پورا کرنا ناممکن نہیں ہے- روایتی طریقے ہی سے لباس کی ضرورت پوری کرنا بہت آسان ہے، مزید برآں اب تو ٹرانس جنیٹکس کی مدد سے بکری کے دودھ سے دنیا کا ہلکا ترین وزن والا دنیا کا مضبوط ترین ریشہ تیار ہو رہا ہے-

رہی بات سرمایہ کی تو ایک جانب دولت کا ارتکاز درحقیقت عین اسی وقت دوسری جانب بدحالی، مشقت کی اذیت، غلامی، جہالت، ظلم اور ذہنی پسماندگی کا ارتکاز ہے۔ ٹیلی کمیونی کیشن، اسلحے، مالیات اور خوراک سے وابستہ صرف 190 ملٹی نیشنل اجارہ داریاں 85 فیصد عالمی معیشت پر قابض ہیں- ناروے دنیا کی 25 ویں بڑی معیشت ہے لیکن وال مارٹ (Walmart) کی آمدن اس سے 7ارب ڈالر زیادہ ہے- مارگن سٹینلے کا مالیاتی حجم ازبکستان سے زیادہ ہے… پیپسی (Pepsi) کا مالیاتی حجم اومان سے زیادہ ہے-

اس وقت دنیا کے صرف دس بڑے سرمایہ داروں کے پاس 577 ارب ڈالر کے NET WORTH موجود ہیں- ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کے 75 آدمی ایسے ہیں جنکی مجموعی دولت باقی دنیا کی مجموعی دولت سے زیادہ ہے-

لہذا ثابت یہ ہوا کہ اس کرہ ارض پر کم از کم خوراک، رہائش اور لباس جیسی بنیادی ضروریات مہیا کرنے کے لیے نہ وسائل کی کمی ہے اور نہ ہی قدرتی و مصنوعی ذرائع پیداوار کی کوئی قلت ہے- معاملہ کچھ یوں ہے کہ دنیا کے وسائل و ذرائع پیداوار، دنیا کی ایک اقلیتی آبادی کی نجی ملکیت ہیں- اور دوسری طرف دنیا کی اکثریت اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات کیلئے سسک سسک کر جی رہی ہے-
میرے حساب سے اب دنیا کے انسانوں کے پاس دو راستے ہیں- پہلا راستہ یہ ہے کہ ہم اس دولت اور زرائع کی تقسیم کو خدائی تقسیم سمجھتے ہوئے خاموشی اختیار کر لیں، اور یہ ہمارے مذہبی علمائے کرام کا سبق بھی ہے- ہم اس بات پہ یقین کر لیں کہ خدا کسی کو زیادہ دے کر ‘آزما” رہا ہے اور کسی کو محروم رکھ کر “آزما” رہا ہے- ساتھ ساتھ ان امیروں کا انتظار کریں کہ یہ لوگ اپنے اثاثوں کا 2.5 یا 5 فیصد ہمیں خیرات دیں- اگر یہ امیر زکوت و خیرات نہیں دیتے تو ان کو ہمارے مذہبی علما تلقین و تنبیہ کریں گے- اگر واعظ و تلقین کے باوجود یہ امیر، دنیا کی مجبور و غریب آبادی کی جھولی میں کوئی خیرات نہیں ڈالتے تو ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟ یہ تو خدائی تقسیم ہے اور خدا کے کاموں کو خدا ہی بہتر جانتا ہے- صبر کرنا چاہیے- یہ دنیا آزمائش گاہ ہے، جیسے حالات بھی ہیں اس پر صبر کرتے ہوئے زندگی کے دن پورے کریں- یوم آخرت کا انتظار کرنا چاہئے- خدا ہمیں ہماری مجبوریوں اور غریبی کے صلے میں انعام و اکرام سے نوازے گا- یہ ایک ایسا راستہ ہے جس پہ اس دنیا کے تمام غریب و مجبور لوگ عام طور پر گامزن ہیں- کیونکہ انکو، انکے ماں باپ کو اور انکی اولادوں کو یہی سمجھایا پڑھایا جا رہا ہے- مذہبی علمائے کرام کی تقاریر و تحریر کا مرکزی متن بھی یہی ہے- عالمگیر سرمایہ دار طبقہ کو بھی یہی پسند ہے کہ لوگ اس راستے کو چن کر اپنی زندگی یونہی گزار دیں- بظاہر یہ راستہ آسان بھی ہے، بظاہر پرسکون بھی ہے- مگر یہ راستہ درحقیقت عذابوں اور آنسوؤں سے مزین ہے-

دوسرا راستہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے غریب اور مجبور لوگ متحد ہو جائیں- ایک دوسرے کا دست و بازو بن جائیں- دنیا بھر کے غریب اور مجبور لوگ ایک دوسرے کو جگائیں- تمام مجبور لوگ اِس بات کا ادراک حاصل کریں کہ امیروں نے وسائل اور زرائع پیداوار پہ غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے- وسائل اور قدرتی زرائع پیداوار تمام انسانوں کی ملکیت ہیں- ان تمام اثاثوں پہ دنیا کے تمام لوگوں کا مساوی حق ہے- یہ وسائل کسی اقلیت کی نجی ملکیت میں نہیں ہونے چاہیں- اِسی طرح سائنسی و تکنیکی ترقی کسی ایک فرد یا اقلیت کی بدولت نہیں بلکہ یہ کلی انسانیت کی کاوشوں کا نتیجہ ہے- لہذا اس سائنسی و تکنیکی ترقی کے ثمرات کسی ایک فرد یا اقلیت تک محدود نہیں رہنے چاہیں- انسانی جدوجہد، سیاسی و سماجی، کا مقصد، وسائل اور زرائع پیداوار کو سرمایہ دار طبقہ کے قبضے سے نکال کر پوری انسانیت کی فلاح کیلئے وقف کردیا جائے- ایک ایسا سماج ایک ایسا نظام مرتب کیا جائے جس میں کوئی کسی کا حق نہ مارے- جہاں غربت کا نام و نشان تک نہ ہو- دنیا کی غریب اور مجبور آبادی کو سمجھنا ہو گا کہ موجودہ معاشی، سیاسی اور سماجی فرسودہ نظام ناقابلِ برداشت ہوچکا ہے، مجبور عوام کو اس نظام کی سبھی حددو وقیود پامال کرنی ہونگی- یہ راستہ ایسا ہے کہ عوام کو عملی اور نظریاتی جنگ لڑنی ہو گی- اپنے حق کیلئے اور اپنی آنے والی نسل کے حقوق کیلئے، اس زمین کی خوبصورتی کیلئے، اس زمین کے امن کیلئے- مجبور و محکوم عوام کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیئے- جاگیرداروں کو اور سرمایہ داروں کو انکی جائیدادوں سے بیدخل کرنا ہوگا- انہیں بتانا ہو گا کہ اقلیت، اکثریت کو زیادہ عرصے تک غلام نہیں بنا سکتی- غریب عوام کو اپنے ذہنوں سے حسِ غلامی تحلیل کرنی ہو گی، ایسا ہونے سے روئے زمین پر کوئی آقا باقی نہ رہے گا- دنیا کے تمام وسائل،ذخائر اور دولت پر سے بزدل اقلیت کا قبضہ ختم کرتے ہوئے تمام معاشرے اورخطوں کو مساوی بنیادوں پر ترقی دینی ہو گی، اور تمام انسانیت کو برابری کے درجے پر لانے کا منصوبہ بنانا ہو گا- اہل دانش اور مخلص لوگ کی مدد سے، غریب آبادی کو اس جدوجہد کی مربوط منصوبہ بندی سیکھنی ہو گی- اس راستے کی آخری منزل غریبوں کی عظیم فتح ہو گی-فیصلہ آپ کو کرنا ہے، آپ کونسا راستہ اختیار کرتے ہیں-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے