اردو ادب کی تاریخ میں مشہور شعراء کے نام اور ان کا کام اس قدر زیادہ ہے کہ اگر ہر ایک کا نام اور مختصر تعارف بھی لکھنے بیٹھا جائے تو حیات مستعار کم پڑ جائے گی۔ اور اس سے بھی مشکل مرحلہ ان میں سے یہ انتخاب کرنا ہے کہ کس کو لیا جائے اور کس کو چھوڑا جائے، کیوں کہ ہر نام اپنی جگہ نہ صرف یہ کہ انتہائی اہم ہے بلکہ اپنی ذات میں انجمن ہے۔ اس مشکل سے نکلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ایک خاص دور کا انتخاب کر کے اس میں پائے جانے والے شعراء کا مختصر تعارف اور ان کے کلام کے چند نمونے پیش کیے جائیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی خاص دور کا انتخاب بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ شعراء میں سے چند کا انتخاب مشکل ہے۔
اردو لکھنے ، بولنے اور اس میں نثر و نظم کے میدان میں مشق سخن کرنے والے یوں تو ہر ملک میں کچھ نہ کچھ پائے جاتے ہیں لیکن اس زبان کا اصل وطن اور مسکن بر صغیر پاک و ہند ہے۔ اور دنیا میں جہاں کہیں اس زبان کے جاننے والے اور چاہنے والے پائے جاتے ہیں ان کا خمیر بھی اسی مٹی سے اٹھا ہوا ہے، ان کے اسلاف یہیں سے ہجرت کر کے دیار غیر میں جا بسے اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے اور ان کی دو دو اور تین تین نسلیں وہیں جنمیں، وہیں پلی بڑھیں اور اسی رنگ میں رنگی گئیں۔
پاک و ہند میں سے ہم تقسیم بر صغیر کے بعد پاکستان میں میدان شعر میں نام پیدا کر کے آسمان سخن کے درخشاں ستاروں کی حیثیت اختیار کرنے والے چند شعراء کے تبصرے پر اکتفا کریں گے۔
ہمیں ہر گز یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ شاعر بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوتا ہے اور اس کی رذہنی و فکری رجحان سازی اور رویوں کی تشکیل میں معاشرہ، اس کے حالات اور اس کی روایات بڑی حد تک اثر انداز ہوتی ہیں۔ اور شاعر چونکہ معاشرے کا چشم و دل ہوتا ہے اور اس کا مشاہدہ باقی لوگوں سے زیادہ تیز ہوتا ہے اس لیے معاشرے کے اثرات پر اس کی نظر بھی باقی لوگوں سے گہری ہوتی ہے اور پھر یہ مشاہدہ اس کے کلام میں جھلکتا نظر آتا ہے، کہیں اس کا عکس مثبت ہوتا ہے اور کہیں اس معاشرتی عمل کا رد عمل اور اس کی مذمت و مزاحمت شاعر کے کلام میں جا بجا نظر آتی ہے۔
پاکستانی معاشرہ شروع ہی سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے اس لیے اس کے شعراء کے رجحانات بھی بدلتے رہے۔ ابتداء میں تو قبل از تقسیم والی سوچ اور انداز فکر ہی شعراء میں موجو دتھی لہذا وہی کلاسیکی اور قدیم روایت پر مبنی شاعری ہوتی رہی جس میں نمایاں نام شاعر قومی ترانہ پاکستان حفیظ جالندھری اور صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے ہیں۔ یہ اگرچہ بچوں کے شاعر کے طور پر معروف ہیں لیکن ان کی غزل اور دیگر اصناف شاعری میں کلاسیکی رنگ دیکھا جا سکتا ہے۔
کلاسیکی رجحان زیادہ دیر چل نہ سکا کیوں کہ پھر پاکستان میں ترقی پسند سوچ نے زور پکڑنا شروع کر دیا تھا۔ شاید اس کی وجہ دائیں اور بائیں بازو کی آپس میں نبرد آزمائی بھی ہو ۔ ترقی پسند تحریک ایک وقت میں بہت معروف ہوئی تھی اور اردو شاعری کے بڑے بڑے نام اس میں موجود تھے۔ چند قابل ذکر اور نمایاں نام جن کی شاعری ہر خاص و عام کے پاس یکساں مقبول ہے اور جس کا اعتراف اپنے اور پرائے سب کرتے ہیں ان میں فیض احمد فیض ، احمد ندیم قاسمی اور عبد الحمید عدم ہیں۔ ترقی پسند رجحان میں ایک عنصر مزاحمت کا بھی ہے اور ان کی شاعری میں جا بجا اس کا رنگ نظر آتا ہے۔
[pullquote]فیض احمد فیض
[/pullquote]
فیض احمد فیض کے شعر کو بہت زیادہ مقبولیت ملی خاص طور پر کچھ اشعار اور غزلیں آج بھی زبان زد عام ہیں جن میں
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامتی رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں
اور اسی طرح سقوط مشرقی پاکستان کے بعد فیض نے جو اشعار کہے وہ بھی سب کے دل کی یکساں آواز ہیں ۔ اس میں فیض نے دکھ اور غم کے جذبات کو جو الفاظ کا پیرہن دیا ہے وہ فیض ہی کا کمال ہے۔
ہم کہ ٹھہرے اجنبی کتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
[pullquote]عبد الحمید عدم [/pullquote]
عبد الحمید عدم کے کلام میں موضوعات اگرچہ نئے نہ تھے بلکہ وہی پرانے موضوعات گیسوئے جاناں اور جام و مینا ہی تھے لیکن ان کا انداز ایسا تھا جو سننے والے کو اک نیا سرور دے جاتا تھا۔
[pullquote]احمد ندیم قاسمی
[/pullquote]
احمد ندیم قاسمی بھی شاعری اور افسانہ دونوں میں ایک جانا پہچانا نام ہیں، رجحان کے لحاظ سے ترقی پسند ہیں اوران کی شاعری میں جا بجا یہ رجحان نظر آتا ہے، مذمت و مزاحمت کا پہلو بھی کہیں کہیں عود کر آتا ہے کیوں کہ ترقی پسند اور قدامت پسند تحریکوں کا تصادم ہر دور میں رہا ہے اور اس کے اثرات جانبین میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
مذکورہ بالا ناموں کے علاوہ بھی ایسے بے شمار نام ہیں جو تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اسی ڈگر پر چلے اور ترقی پسندی، مذمت، مزاحمت اور عشق و محبت جیسے موضوعات و رجحانات کا پرتو لیے شاعری کے میدان میں جھنڈے گاڑتے گئے۔
تقریبا ہر عشرے کے شعراء کا رجحان اپنے سے ما قبل و ما بعد عشرے کے شعراء سے کسی نہ کسی حد تک علیحدہ ہے۔ اور اس کا سبب ملکی سیاسی حالات، مختلف تحریکیں اور مختلف مکاتب فکر و فن کی آپس میں چپقلش اور نوک جھونک ہیں کیوں کہ ایک شاعر اپنے وقت اور دور کے حالات کا عکاس ہوتا ہے۔
بیسویں صدی کے آخری عشرے میں اور اکیسویں صدی کے ابتدائی عشرے میں جن شعراء پر شہرت و مقبولیت کی دیوی مہربان ہوئی ان میں پروین شاکر، احمد فراز، منیر نیازی اور جیسے نام قابل ذکر ہیں، اس کے علاوہ بھی بہت سے نام ہیں، یہ چند نام “مشت نمونہ از خروارے” کے طور پر ذکر کیے گئے ہیں۔
[pullquote]پروین شاکر:۔
[/pullquote]
ان کی شاعری نے نسوانیت کو آواز دی، جس طرح پروین شاکر نے عورت کے جذبات و احساسات کو خوبصورت اظہار بخشا یہ انہیں کا کام ہے، ان سے قبل یا بعد ایسا نمونہ دیکھنے کو نہیں ملا ۔ ان کی شاعری محبت اور عورت کے گرد گھومتی ہے۔ تعلیم اگرچہ انگریزی ادب کی حاصل کی لیکن اردو میں نام کمایا۔
[pullquote]احمد فراز:-
[/pullquote]
کوہاٹ میں ایک پشتون فیملی میں پیدا ہوئے، تعلیم اردو اور فارسی میں لی اور کئی حکومتی ذمہ داریوں پر فائز رہے ، نیشنل بک فاؤنڈیشن کے بھی سربراہ رہے۔ ان کی شاعری میں رومانویت کا عنصر اگرچہ غالب ہے لیکن مزاحمت اور امید کے پہلو بھی جا بجا نظر آتے ہیں۔ ضیاء الحق کے دور میں آمریت کے خلاف ان کی نظمیں بطور خاص ان کی نظم “محاصرہ” بہت زیادہ مقبول ہوئی ۔ رومان پرور اورعشق محبت کے گرد گھومنے والے اکثر یاسیت کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن فراز اپنے اشعار میں مایوسی کے بجائے اپنی صلاحیتوں کے مطابق عمل کر کے روشنی کی کرنیں پیدا کرنے کا درس دیتے ہیں
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
[pullquote]منیر نیازی؛-
[/pullquote]
منیر نیازی بیک وقت اردو اور پنجابی کے شاعر تھے۔ انہیں احتجاج کے شاعر کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے بعض اشعار ضرب المثل بھی بن گئے جن میں اردو کی ایک نظم کا پہلا مصرعہ ‘ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں’ اور ایک پنجابی قطعہ ہے
کج اونج وی راھواں اوکھیاں سن
کج گَل وچ غم دا طوق وی سی
کج شھر دے لوک وی ظالم سن
کج مينوں مَرن دا شوق وی سی
مذکورہ بالا تحریر میں انتہائی اختصار کے ساتھ شعراء کے رجحان کا تعارف پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور صرف ان شعراء کو شامل کیا گیا ہے جو حیات مستعار گزار کر دار فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ اگرچہ موجودہ وقت کے شعراء میں بھی بہت بڑے بڑے نام ہیں جن میں [pullquote]افتخار عارف، انور مسعود ، قاسم پیر زادہ[/pullquote] جیسے انتہائی قابل احترام اور مقبول ہیں لیکن اس ایک مضمون کی وسعت ساری تفاصیل کو سمونے کے لیے ناکافی ہے۔ ہر شاعر کا کام اور اس کا تعارف ایک مستقل کتاب کی وسعت کا متقاضی ہے اگر کتاب نہیں تو کم از کم ہر شاعر کے تعارف کے لیے ایک علاحدہ مضمون ناگزیر ہے۔