جب میری قمیص جل گئی تھی

کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے آفس جانے کے لئے تیار ہو رہی تھی گاڑی آنے میں تھوڑا ہی ٹائم رہتا تھا۔۔ جلدی جلدی میں کپڑے پریس کرنے لگی استری زیادہ گرم ہو گئی اور میری پسندیدہ قمیص جل گئ۔۔ سارا دن میرا موڈ خراب رہا۔۔ رہ رہ کر خیال آتا تھا اتنی اچھی شرٹ تھی دھیان سے استری کرتی ، خود کو میں نے ڈھیروں بار ملامت کیا۔

جس ٹیکسی پر میں روز آفس جاتی ہوں اس کے ڈرائیور چاچا پچہتر سالہ بزرگ ہیں۔۔ تعلیم حاصل نہ کرنے کے باوجود بھی سیاست، کھیل، ادب غرض یہ کہ وہ کون سا موضوع ہے جس پر ان سے بات نہیں کی جا سکتی۔۔ پچھلے کچھ عرصے سے چاچا کچھ پریشان تھے ایک دن کہنے لگے اگر آپ مجھے اگلے مہینے کا کرایہ ایڈوانس دے دیں تو مہربانی ہو گی میں نے پیسے دے دئیے کہ اگلے مہینے بھی تو دینے ہی ہیں۔۔ میں نے پوچھا چاچا خیریت ہے تو کہنے لگے میرے اوپر نوے ہزار کا قرضہ چڑھا ہوا ہے اب واپس کرنے ہیں تو بہت مالی پریشانی ہے۔ خیر ادھر اودھر سے ادھار لے کر کچھ اپنی جمع پونجی میں سے چاچا نے اپنا ایک ادھار تو اتار لیا مگر بہت ڈھیر سارا چھوٹا چھوٹا ادھار مزید لے لیا۔

تین چار روز پہلے کی بات ہے چاچا کا فون آیا کانپتی آواز میں بتایا کہ میری گاڑی کا مارگلہ روڑ پر شدید ایکسیڈینٹ ہو گیا ہے۔۔ میں نے پوچھا چاچا کیسے بچت ہوئی کہتے ہیں الحمداللہ جانی نقصان نہیں ہوا۔۔ پر میری گاڑی تباہ ہو گئی ہے۔۔ میں آپ کو لینے نہیں آ سکوں گا۔۔ میں نے اپنے طور پر تسلی دی۔ آفس سے گھر آ کر دوبارہ کال کی تو چاچا بتانے لگے کہ مارگلہ روڈ پر جا رہے تھے کہ اچانک ایک نئی گاڑی جس میں ممکنہ طور پر نشے میں دھت نوجوان بیٹھے تھے انہوں نے گاڑی کو اتنے زور سے ہٹ کیا کہ گاڑی پیچھے سے مکمل طور پر پچکی گئی ہے۔۔ گاڑی کی پیچھلی سیٹ پر ایک مسافر خاتون سیٹ کے درمیان پھنس گئی جنہیں بڑی مشکل سے نکالا گیا۔۔ افسوس کی بات یہ تھی کہ گاڑی میں موجود لڑکوں نے بزرگ ٹیکسی ڈرائیور سے معافی مانگنے اور نقصان پورا کرنے کے بجائے گاڑی وہاں سے دوڑا دی۔۔ ٹیکسی والے چاچا کہنے لگے میں نے ایک اور ٹیکسی کا انتظام کر لیا ہے آپ کو اور باقی لڑکیوں کو کل سے پک اینڈ ڈراپ کروں گا۔

اگلے دن چاچا ایک اور کالی ٹیکسی میں میرے گھر کے دروازے پر موجود تھے کہنے لگے اللہ کا فضل ہوا جان بچ گئی۔۔ سواری کی بھی اور میری بھی۔۔ اور دیکھیں اللہ کتنا مسبب الاسباب ہے میرا ایک جاننے والے ٹیکسی ڈرائیور ہے وہ کسی کی ٹیکسی چلاتا ہے وہ چھٹیوں پر گھر جانا چاہ رہا تھا اور ٹیکسی کے مالک سے زیادہ چھٹیاں نہیں مل رہی تھی میں نے اس کو کہا کہ کچھ دن کے لیے ٹیکسی مجھے دے دے میں اپنا کام بھی کر لوں گا اور جتنے پیسے ٹیکسی کے مالک کو دینے ہوتے ہیں اسے بھی روزانہ کی بنیادوں پر دے دوں گا۔

میں نے کہا چاچا وہ لڑکے تو آپ کا نقصان کر کے بھاگ گئے ہیں اب ٹیکسی ٹھیک کروانے پر تو بہت خرچہ آئے گا چاچا کہنے لگے کہ گاڑی مکمل ٹھیک ہونے پر کم از کم پچیس ہزار روپے لگیں گے۔۔ میں نے کہا چاچا یہ تو بہت بڑا خرچہ ہے وہ کہنے لگے خرچہ تو بہت بڑا ہے مگر اللہ مدد کرے گا جس نے پریشانی دے وہ ختم بھی کرے گا اس کا یہی شکر ہے کہ اس نے جان بچا لی۔۔ اللہ ان لڑکوں کو بھی ہدایت دے ماں باپ اتنی محنت سے پالتے ہیں اور یہ عیاشیوں میں لگ کر اپنی جان کے بھی دشمن ہو جاتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ ماں باپ کا سرمایہ پیسہ نہیں اولاد ہوتی ہے۔۔

چاچا کی باتیں سن کر ان کا وسیع ظرف دیکھ کر مجھے خود پر ندامت ہوئی کہ ایک قمیض کے جل جانے پر سارا دن میں اسی کو سوچتی رہی اور دل برا کرتی رہی۔ جبکہ ان کی کمائی اور روزی کا زریعہ داو پر لگ گیا مگر پھر بھی ان کے منہ سے ایک دفعہ کوئی ایسی بات نہیں نکلی جس کو دیکھ کر لگے کہ یہ پریشان ہے۔۔ سیانے سچ کہتے ہیں توکل سب سے بڑی نعمت ہے چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی پریشانی اللہ کے سپرد کر دی جائے تو نہ نیند کی گولی کھانی پڑے اور نہ ہی کوئی ڈپریشن قریب پھٹکے۔۔ ایک چھوٹے سے واقعے نے ایسا سبق دیا کہ گویا سکون کا فارمولہ ہاتھ آ گیا ہے۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے