بھگوان کی خوشنودی کے لیے بالوں کا نذرانہ

ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ جنوبی انڈیا کے دو مندروں کی جانب اس اُمید پر سفر کرتے ہیں کہ ان کی دعاؤں کو شرفِ قبولیت مل جائے گا۔ لیکن ہر معجزہ ایک قربانی کا طالب ہوتا ہے اور یاتری اپنے بالوں کی قربانی دیتے ہیں۔
گوپالا اماّ اپنے خاندان کی بُری قسمت بدلنے کے لیے بیتاب ہیں۔ وہ چینّئی کے مضامات میں واقع علاقے پرم بر کی ایک تنگ گلی میں ایک کمرے کے اپنے مکان کو کھونے کے خوف میں مبتلا ہیں۔
اماّ صفائی کا بڑا مشکل کام کر کے بڑی مشکل سے گزارہ کرتی ہیں۔ اُن کے شوہر کی نوکری جاتی رہی جس کے بعد انھوں نے کثرت سے شراب نوشی شروع کر دی۔ اُن کا بڑا بیٹا اپنی پڑھائی میں ناکام رہا۔ ان تمام چیزوں نے اماّ کے اس خیال کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ہندو دیوتاؤں سے مدد مانگیں۔

وہ کہتی ہیں: ’میں نے تیروتنی مندر جا کر اپنے سر کے بال منڈوانے کا فیصلہ کیا۔ اسی طریقے سے دیوتا مجھے اور میرے خاندان کو نواز دیں گے۔‘

بال منڈوانے کی رسم یا جب مذہبی مقاصد کے لیے کی جائے تو اسے مُونڈن کہا جاتا ہے۔ یہ ایک قدیم ہندو داستان کے ساتھ منسلک ہے
یہ ہلکی سی تراش خراش نہیں ہوگی بلکہ پورے سر کے بال مونڈے جائیں گے۔ اپنی کوئی بہت خوبصورت چیز خدا کے لیے قربان کر کے، اپنی انا ختم کر کے اور 32انچ لمبی لہراتی زُلفوں کی قربانی دے کر وہ یہ اُمید رکھتی ہیں کہ وہ جواب میں انھیں اچھی قسمت سے نواز دیں گے۔
ہالی وڈ سے لے کر برطانیہ اور برطانیہ سے لے کر جنوبی افریقہ تک، بہت بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والے انسانی بال بھارتیوں کے ہوتے ہیں کیوں کہ اُن کی ساخت کاکیشیئن نسل سے تعلق رکھتی جنھیں بال بنانے والی صنعت میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔
بھارت کے لیے یہ صنعت ڈھائی کروڑ ڈالر سالانہ کی آمدن پر مشتمل ہے۔ ایک کلوگرام بالوں کے 130 ڈالر ملتے ہیں اور زیادہ لمبے بال جیسے کہ اماّ کے بال 160 گرام ہیں، تو اِن کی کُل قیمت 20 ڈالر کے قریب ہے۔
بال منڈوانے کی رسم یا جب مذہبی مقاصد کے لیے کی جائے تو اسے مُونڈن کہا جاتا ہے۔ یہ ایک قدیم ہندو داستان کے ساتھ منسوب ہے۔
اس داستان کی کئی روپ موجود ہیں لیکن ان تمام کا مرکز بھگوان وشنو ہیں جنھوں نے اپنے سر پر کلہاڑی سے وار کیا جس سے وہ اپنے بالوں کے ایک حصے سے محروم ہو گئے۔ پھر نیلا دیوی نے متبادل کے طور پر اپنے بالوں کا ایک حصہ انھیں پیش کیا۔ وشنو بہت شکرگزار تھے کہ کسی کی جانب سے انھیں اپنے بال قربانی کے طور پر پیش کرنے کے بعد ان کی خواہش منظور کر لی گئی۔

حجام نے اُن کے سر کے اگلے حصے کو گیلا کیا اور اپنا استرا اُٹھایا اور اُن کی کھوپڑی پر آہستگی سے چلانا شروع کیا
تمل ناڈو اور آندھرا پردیش کی جنوبی ریاستیں ایسی ہیں جہاں بال منڈوانے کی یہ رسم سب سے عام ہے۔ تروتنی اور تروپتی کے دو ہندو مندروں سے ہر ماہ ٹنوں کے حساب سے بال جمع کیے جاتے ہیں۔
ان مندروں کے احاطوں کے اردگرد ان کے بڑے بڑے کمرے جنھیں کلیانکتن یا ’خوشی کی جگہیں‘ کہا جاتا ہے۔ وہاں سینکڑوں کی تعداد میں سفید لباس میں ملبوس حجام ایک قطار میں یاتریوں کے ہمراہ اکڑوں بیٹھے ہوتے ہیں۔
ایک یاتری نے، جنھوں نے تروتنی میں اسی وقت اپنے بال مُنڈوائے تھے، بتایا: ’مجھے اپنے سر پر بال نہ ہونے سے تھوڑی شرم آ رہی ہے لیکن میں خوش ہوں۔‘
حجام کے سامنے نیچے ٹانگ پر ٹانگ رکھے اور اپنے سر کو آگے کی طرف جُھکائے بیٹھی اماّ مسکرا رہی ہیں۔ حجام نے اُن کے سر کے اگلے حصے کو گیلا کیا اور اپنا استرا اُٹھایا اور اُن کی کھوپڑی پر آہستگی سے چلانا شروع کیا۔ اُن کے بال زمین پر گرنے سے پہلے ہی جمع کر لیے گئے اور انھیں نیلے رنگ کے ایک مقفل ڈرم میں رکھ دیا گیا۔
بالوں کے تاجر ہر ہفتے اِن ڈرموں کو جمع کرتے ہیں۔ اِن تاجروں کے بہت سے مندروں سے رابطے ہیں جبکہ دوسرے مندر نیلامی کرتے ہیں اور جو سب سے زیادہ بولی لگاتا ہے بال اسے فروخت کر دیے جاتے ہیں۔
تروپتی مندر وہ جگہ ہے جہاں دنیا میں سب سے زیادہ بال اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ زیارت کیے جانے والے مذہبی مقامات میں سے ایک بھی ہے جس میں ہر روز تقریباً ایک لاکھ یاتری آتے ہیں۔ جبکہ سالانہ اس سے 30 لاکھ ڈالر کمائے جاتے ہیں۔

بال منڈوانے کا یہ عمل بہت تیزی سے ہوتا ہے اور وہ جو دیوتاؤں کو اپنے بالوں کا تحفہ پیش کر رہے ہوتے ہیں، اپنے سر کو حجاموں کے ہاتھوں میں دے کر بیٹھ جاتے ہیں
یہ رقم خدمتِ خلق کے کاموں، سکولوں اور مندروں کی دیکھ بھال میں استعمال ہوتی ہے۔
حجاموں کو بھی اس کام کے لیے ہر ایک بار بال منڈنے کے 15 روپے دیے جاتے ہیں۔
بال منڈوانے کا یہ عمل بہت تیزی سے ہوتا ہے اور وہ جو دیوتاؤں کو اپنے بالوں کا تحفہ پیش کر رہے ہوتے ہیں، اپنے سر کو حجاموں کے ہاتھوں میں دے کر بیٹھ جاتے ہیں۔
جس کے بعد وہ دیوتاؤں کو اپنے منڈے ہوئے بالوں والا سر دکھانے کے لیے مندر آتے ہیں تاکہ انھیں اُن کی اس قربانی کے بدلے میں نوازا جا سکے۔
اماّ نے آئینے میں خود کو دیکھا اور اپنی بدلی ہوئی حالت پر ہنسیں۔ انھوں نے اپنے سر کو چھوا اور کہا کہ انھیں بہت خوبصورت احساس ہو رہا ہے۔

’جب حجام میرے بال تراش رہا تھا تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے مسائل مجھ سے دور چلے گئے۔ اب چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ انھیں معلوم نہیں کہ ان کے بال کہاں جائیں گے۔ جب انھیں بتایا گیا کہ تاجر دنیا بھر میں ان بالوں کو وگیں بنانے کے لیے استعمال کریں گے تو وہ دوبارہ ہنسیں۔

اماّ نے مندر سے باہر نکلنے سے اور اپنے گھر کی جانب یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا اُن کی زندگی تبدیل ہوئی یا نہیں، سفر کا آغاز کرنے سے قبل کہا ’اگر ان بالوں کی وجہ سے کوئی خوبصورت بن جائے تو مجھے خوشی ہو گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے