شاید ”پارٹی” تو اب شروع ہوئی ہے

نواز شریف بہت مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہوئے بھی بالآخر وقتی طورپر زچ ہوتے نظر آرہے ہیں۔ پانامہ پیپرز کے نام سے افشاء ہوئی دستاویزات میں ان کا ذاتی ذکر نہ تھا۔ قصہ بیان ہوا تھا ان کے بیٹوں سے منسوب کچھ آف شور کمپنیوں کا جو لندن میں جائیداد خریدتی اور اسے Developکرکے مزید سرمایہ جمع کرتی چلی جاتی ہیں۔

لندن کی بے شمار جائیدادیں ان دنوں آف شور کمپنیوں ہی کی ملکیت ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ نام لئے جاتے ہیں روس سے آئے چند نودولتیوں کے جنہوں نے کمیونزم کے خاتمے کے بعد نج کاری وغیرہ کے دھندے سے راتوں رات بے تحاشہ منافع کمایا۔ یہ منافع انہوں نے کسی کاروبار میں ذاتی سرمایہ لگاکر جمع نہیں کیا۔ صرف اور صرف اپنے ریاستی عہدوں کی بدولت سرکار کے زیر انتظام چلائے جانے والے اداروں کو اپنے چہیتوں اور رشتے داروں میں اونے پونے دام لے کر تقسیم کردیا۔ سرکاری اداروں کو نجی سرمایہ کاروں کے حوالے کرتے ہوئے ان لوگوں نے اپنے لئے کمیشن اور کیک بیکس کے ذریعے ہارڈکیش کے انبار لگائے۔ اپنے ہاتھ آئے اس کیش کو کسی نہ کسی طرح ڈالروں میں تبدیل کیا اور آف شور کمپنیوں کے ذریعے لندن میں جائیدادیں خریدنا شروع کردیں۔

ہمارے یار چین میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کی لذتیں دریافت ہوجانے کے بعد یہ عمل کئی برسوں سے جاری ہے۔ چین کے نودولتیے مگر لندن سے زیادہ نیویارک اور امریکہ کے دیگر بڑے شہروں میں جائیدادیں خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ روس اور چین کے بعد آتے ہیں تیل کی دولت سے مالامال ہمارے چند برادر اسلامی ممالک۔ ربّ کریم نے انہیں مغربی جمہوریت کے چونچلوںاور شوروغوغا سے بچائے رکھا ہے۔ وہاں ہوتے ہیں بادشاہ، سلاطین اور ان کے شہزادے۔ وہ کسی پارلیمان وغیرہ کے آگے جوابدہ نہیں۔ نہ ہی وہاں آزاد میڈیا جیسی کوئی بدعت موجود ہے۔ تیل نکالتی ہیں مغربی کمپنیاں۔ ان کی مارکیٹنگ کا نظام بھی ان کے ہاتھوں میں ہے۔ بادشاہ، سلاطین اور شہزادے صرف اس کاروبار کے ذریعے ملے منافع میں زیادہ سے زیادہ حصے کے طلب گار ہوتے ہیں۔ یہ حصہ مل جائے تواسے امریکہ اوریورپ میں شاہانہ دِکھتی جائیدادیں خریدنے پر بھی صرف کردیتے ہیں۔

پاکستان مگر قدرتی وسائل سے محروم ایک بے تحاشہ آبادی والا ملک ہے۔ کاروبار سے یہاں کے مسلمان کو تاریخی طورپر کوئی زیادہ دلچسپی بھی نہیں رہی۔ سنٹرل ایشیاء سے دلاور آتے۔ وہ جب دہلی کے تخت پر قابض ہوجاتے تو منصب داروںمیں رقبے بانٹ دیتے۔ منصب دار کسانوں سے مالیہ وصول کرکے اپنی پتی نکال کر ریاستی خزانے میں جمع کروادیتے۔ کسی دھندے میں جی لگانے کی ضرورت ہی ان دلاوروں کو کبھی محسوس نہ ہوئی۔

کاروبار سے رغبت ہمارے خطے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد کے بعدشروع ہوئی۔ یہ رغبت بھی زیادہ تر جنوبی اور مغربی ہند میں رہنے والے پارسی خاندانوں سے ہوتی ہوئی چند ہندو گھرانوں میں آئی۔ مسلمانوں نے کاروبار کا آغاز کیا تو سب سے پہلے چمڑے جیسی جنس سے جسے ہندومذہبی بنیادوں پر ہاتھ لگانے سے کتراتے تھے۔

قیام پاکستان کے بعد البتہ ہمارے ہاں بھی کئی گھرانوں میں تجارت، صنعت کاری اور بینکنگ سے اصل لگن پیدا ہوئی۔ انگریز نے اپنے دور میں کپاس کو صنعتی خام مال کے طورپر پیدا کرنا سکھادیا تھا۔ چرخے سے کپاس کو سوت بناکر کھڈی کے ذریعہ کپڑا بنانے کی مہارت ہمارے ہاں صدیوں سے موجود تھی۔ چرخے کی جگہ لی لومزنے اور پھر شروع ہوگئی ویونگ۔ لومز اور ویونگ نے چند ذہین افراد کو مشینری بنانے کے دھندے کی طرف بھی لگایا جس کی ابتداء فائونڈری سے ہوتی ہے۔ شریف خاندان نے قیام پاکستان سے کئی برس قبل فائونڈری کا کاروبار شروع کیا تھا۔ سات بھائیوں پرمشتمل ایک بڑا خاندان تھا۔ اس خاندان میں اتفاق بھی بہت تھا اور اتفاق میں ہمیشہ برکت ہوا کرتی ہے۔

کاروباری لوگ جس انداز میں منافع جمع کرتے ہیں وہ میرے جیسے عامیوں کی سمجھ میں نہیں آتا۔ ہم ان کے دھندے پر توجہ دینے پر صرف اس وقت تھوڑا سا مجبور ہوجاتے ہیں جب ان میں سے چند لوگ سیاست میں آکر ہمارے حکمران بن جاتے ہیں۔ عقل مند کاروباری اگرچہ سیاست میں آکر لوگوں کی نظروں میں نہیں آنا چاہتا۔ ہمارے فوجی آمروں کی مگر مجبوری یہ بھی رہی کہ ان کا اصل نشانہ ہمیشہ وہ سیاست دان رہے جو جدی پشتی جاگیردار ہواکرتے تھے۔ ان خاندانی اور موروثی سیاستدانوں پر قابو پانے کے لئے ایوب خان نے اپنے دس سالہ دورِ اقتدار میںباقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ملک میں صنعتی انقلاب کے نام پر چند کاروباری افراد کی سرپرستی کی اور ان میں سے کئی ایک کو سیاسی عمل میں حصہ لینے پر بھی مجبور کیا۔

5جولائی 1977ء کے دن اس ملک میں ایک اور مارشل لاء لگاکر جنرل ضیاء نے اپنے پیشرو کی روایت کو بحال کیا۔ اسے کاروباری لوگوں کی زیادہ محبت اس لئے بھی نصیب ہوئی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بہت ساری صنعتوں کو قومیاکر انہیں اپنا دشمن بنالیا تھا۔ نواز شریف کی سیاست میں آمد اور اس میدان میں پے درپے کامیابی درحقیقت ضیائی مارشل لاء کی سرپرستی کا نتیجہ تھی۔ سیاستدان مگر کاروباری حوالے سے بھی بہت تگڑا ہوجائے تو زیادہ عرصہ اپنے ریاستی سرپرستوں کے قابو میں نہیں رہتا۔ نواز شریف کے ساتھ بھی 90ء کی دہائی سے یہ عمل شروع ہوگیا تھا۔

12اپریل 1992 کی رات غلام اسحاق خان کے خلاف ’’میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ والی تقریر فرماکر وہ ریاست کی عسکری اور سول قیادت سے ’’باغی‘‘ ہوگئے تھے۔ اس دن سے آج تک ان کے معاملات ریاست کے دائمی اداروں سے وابستہ اس قیادت سے کبھی خوش گوار نہیں ہوپائے۔ جنرل مشرف کے زمانے میں نواز شریف کی ان اداروں سے بیگانگی اپنی انتہائوں پر تھی۔ جلاوطن ہوجانے کے بعد ان کے لئے شاید مناسب یہی تھا کہ سیاست کو خیر باد کہہ دیتے۔ آدمی مگر ضدی ہیں۔ 2008ء میں وطن لوٹ آئے اور 2013میں اس ملک کے تیسری بار وزیر اعظم بن گئے۔

تیسری بار وزیر اعظم بن کر بھی وہ ذہنی طورپر وہی رہے جو 90ء کی دہائی کے آغاز میں بن چکے تھے۔ وہ ہرگز نہیں بدلے اور نہ ہی ہماری ریاست کے دائمی اداروں میں بیٹھی قوتیں بدلی ہیں۔ ان دونوں کے مابین کچھ لو اور دو کی بنیاد پر ریاستی نظام چلانے کا بندوبست ہونہیں پارہا۔ پانامہ-پانامہ کی بنیاد پر اٹھے بحران کی اصل وجہ اس بندوبست کی عدم موجودگی ہے۔اس بندوبست کے بغیر ہیجان وانتشار جاری رہے گا۔

نواز شریف علاج کے لئے لندن چلے جانے کے بعد بھی اس ہیجان وانتشار سے نجات حاصل نہیں کر پائیں گے۔ اپنے طبی معائنے اور علاج معالجے کے بعد وطن ہر صورت لوٹیں گے اور چوہے بلی کا کھیل ایک نئی قسط کے ساتھ بھرپور انداز میں دوبارہ شروع ہوجائے گا۔ شاید ’’پارٹی‘‘ تواب شروع ہوئی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے