ہندواڑہ سانحے پر جُھوٹ کے آنسو

گذشتہ ہفتے سے آزاد کشمیر سے چھپنے والے تمام اخبارات کو غور سے پڑھا ، ایک ایک خبر کو بار بار دیکھا اور مطلوبہ خبر کے نہ ملنے کے بعد ایک بار پھر وزیر اعظم آزاد کشمیر کی ایک پرانی تقریر سنی جس میں وہ پاکستان سے کچھ نہ ملنے کا گلہ کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں. اس سے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو کیا پیغام جائے گا . جلتی پر تیل اس وقت پڑا جب مجھے معلوم ہوا کہ کل محترم وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید نے کشمیر ہاوس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا کہ ’وفاقی وزرا آزاد کشمیر کے حکمرانوں کو گالیاں دیتے ہیں ، اس سے مقبوضہ وادی میں کیا پیغام جائے گا‘ یہ بیس کیمپ کے وزیراعظم ہیں جس کے معنی لئے جا سکتے ہیں ہراول دستے کا سالار، نعوذ باللہ۔

مقبوضہ کشمیر میں گذشتہ ایک ہفتے سے حالات انتہائی کشیدہ ہیں ، بھارتی افواج اور پولیس ایک بار پھر معصوم کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیلنے میں مصروف ہے ، عوام اورفورسز کے درمیان کشیدگی اسوقت شروع ہوئی جب ایک طالبہ کے ساتھ فوج کی طرف سے کی گئی مبینہ زیادتی پر احتجاج کرنے کے لئے عوام سڑکوں پر نکل آئے ۔ پولیس نے نہتے عوام پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں دو جوانوں سمیت ایک خاتون شہید ہوئے، احتجاج نے رخ موڑ لیا اور اگلے دن یہ ان شہادتوں پر احتجاج تھا ، ایک بار پھر پولیس اور فوج نے وہی طریقہ دہرایا ایک نوجوان اور شہید ہوا ، اب تک اس واقعہ میں پانچ لوگ شہید اور کئی زخمی ہو چکے ہیں ،علاقے میں کرفیو نافذ ہے ، موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند، محبوبہ جی جن کو نئی نئی وزارت اعلی ملی ہے وہ اس واقعے کے پہلے دو دن نئی دہلی میں تھیں ، اور عمر عبداللہ ان کی بے حسی اور غیر موجودگی پر ٹویٹر کے محاذ پر جنگ لڑ رہے تھے ،

صرف انجینئر عبدالرشید تھے جن کو شہداء کے جنازے میں دیکھا گیا ، حریت والوں نے ہمیشہ کی طرح ہڑتال کی کال دی ، شٹر ڈاون اور وہ ساری روٹین ، اور یہ سب دیکھ کر خیال آتا ہے ، کتنا سستا ہے انسانی خون کشمیر میں ، جو اقتدار میں ہیں وہ لوگوں کو پر امن رہنے کی تلقین کر رہے ہیں جو اقتدار سے باہر بیٹھے ہیں وہ مقتدر طبقے کی ٹویٹ پر مذمت کر ہے ہیں ، اور آزادی پسند ہڑتالوں پر اکتفا ، خیال آتا ہے کہ اس طالبہ کی جگہ اگر محبوبہ جی کی ارتقا اقبال ہوتی تو کیا ہوتا ؟ اگر نعیم بھٹ کی جگہ تصدق مفتی ہوتا تو ان کا رویہ کیسا ہوتا ؟ اگر اقبال کی جگہ ڈاکٹر حسیب کے خاندان سے کوئی ہوتا ؟ اگر کل ہندواڑہ کے نوجون کی جگہ عمر عبداللہ کا بیٹا ہوتا تو وہ صرف ٹویٹ کرتے ؟ ڈاکٹر رابیعہ اغوا ہوئی تھی تو انڈیا کی بدنام زمانہ جیلوں سے خطرناک ترین ملزموں کو رہا کر دیا گیا تھا ۔ یہ فرق ہے عوام اور حکمرانوں میں۔

دوسری طرف آزاد کشمیر کے حکمران طبقہ ہے ، بیس کیمپ کے رہنما ، ہراول دستے کے سالار ، دوبارہ نعوذ باللہ ، چار دن میں آزاد کشمیر کے اخبارات میں صرف راجہ فاروق حیدر کا ایک بیان آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ الیکشن مہم میں اتنے مصروف نہیں کہ اپنے بھائیوں(مقبوضہ وادی کے ہم وطنوں)کو بھول جائیں ۔باقی بڑی چھوٹی ، تمام سیاسی جماعتوں کے کسی ایک رہنما کا کوئی مزاحمتی مذمتی بیان نہیں آیا ، وہ سب الیکشن الیکشن کھیل رہے ہیں ، اور اس کھیل میں ابھی مقبوضہ وادی سے ہمدردی کا پتہ (کارڈ) کھیلنے کا ابھی وقت نہیں ہے ،، ابھی اتحاد تشکیل پا رہے ہیں ، کشمیر کاز سے ہمدردی کے نعروں کا موسم سیاسی جلسے ہوتے ہیں ۔ جہاں عوام کو بے وقوف بنانا ہوتا ہے، وہاں پھر مسئلہ کشمیر پر بات ہوگی ، وہاں پہلے گولی چلانے والی بندوق لائی جائے گی ۔ وہاں کشمیر کے لئے ہزار سال تک لڑنے کی بات ہوگی ، وہاں غازی ملت کے کارناموں کی گونج ہوگی ،

تین مہینے یوں لگے گا کہ بس آنے والے چھ مہینوں کے اندر مقبوضہ وادی والے ہم وطن ہمارے ساتھ آزادی کے شادیانے بجا رہے ہوں گے ، بس حکومت بنتے ہی ایک لشکر جرار لائن آف کنٹرول کراس کرے گا اور انڈیا کے پنجہ استبداد سے ہمارے بھائیوں کو رہائی دلوا دے گا ،اور پھر انتخابات ہوں گے ، نئی حکومت بنے گی ، جو پانچ فروری اور چوبیس اکتوبر کو تقریریں کرے گی جو پانچ سال کے عرصہ میں دس تقریریں ہوں گی ، پھر ان پانچ سالوں میں حکومت کا بیس رکنی وفد دو بار یورپی ممالک کا دورہ کرے گا حکومت کے خرچے پر ، انگریزوں کے ساتھ سیلفی لے کر ، اچھے ہوٹلز میں چند دن گذار ر واپس آئے گا اور کہے گا لو جی فرض پورا ہوا ، آخر ہم کشمیری کہلاتے ہیں ہم ، ہمارے بھائی محکوم ہیں ، ہمارے جسم کا ایک حصہ دشمن کے قبضے میں ہے ، اتنا تو ہم کر ہی سکتے ہیں ۔

پھر پاکستان ہے ، جس کے لئے مقبوضہ وادی کے ہم وطنوں کی محبت اور عقیدت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ، وہ آج کل’ لیکس ویکس ‘میں مشغول ہیں ، اور اپنی شہ رگ سے بہتے خون سے ایک دم بے خبر ، پاکستانی میڈیا میں بیسیوں چینلز میں سے صرف دو چینلز نے کچھ سیکنڈ کی خبر چلا کر فرض پورا کیا ، ہاں وہ انڈین ڈب کھڑبے(شاہ رخ خان)کی فلم فین پر ، دو دو تین تین منٹ کی خبر زیادہ تر چینلز نے بڑے ذوق و شوق سے نشر کی ، ارے بھائی کشمیریوں کے سر کٹنا تومعمول ہے ، تو کیا اس کے لئے اپنی خوشیاں چھوڑ دیں لیکن یہ خیال ذہن سے جاتا ہی نہیں کہ اب وزیر اعظم آزادکشمیر کس منہ سے پاکستان کو بلیک میل کریں گے کہ اس سے مقبوضہ کشمیر میں کیا پیغام جائے گا کیا وہ نہیں سوچیں گے کہ وہ اب کیا پیغام دے رہے ہیں ؟ جب وہاں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے اور آپ اپنے الیکشن میں مگن ہیں ، بندوق لے کر جانا مشکل ہے ، جی بالکل ، کسی عالمی فورم تک بات پہنچانا مشکل ہے ، جی ہے ، ایک مزاحمتی بیان تو دیا جا سکتا ہے ۔

محترم وزیر اعظم آزاد کشمیر ! آپ کا پیغام وادی کے لوگوں کو مل گیا ہے ، یہ پیغام ہم یہاں سے کافی عرصے سے دے رہے ہیں ، امید ہے آہستہ آہستہ ان کو سمجھ آ جائے گی کہ ہماری ان سے دلچسپی صرف اس وقت تک ہے جب تک ان کی تکالیف کے بدلے میں ہم نوازے جاتے رہیں ۔ جب تک مسئلہ کشمیر کے نام پر ہم تجوریاں بھرتے رہیں ، اس کے بعد وہاں خون بہے یا عصمتیں لٹیں ، ہمیں اس سے غرض نہیں ہے ۔ وادی میں بہنے والا کون ہماری شکم سیری کا ذریعہ بن جاتا ہے ، تو باقی سب ٹھیک ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے