ہم جن کے لئے لڑتے ہیں.

چلچلاتی دھوپ کا عام سا دن تھا پارلیمان میں پیپلز پارٹی کے ایک منہ پھٹ سینیٹر باہر کھڑے میڈیا کے نمائندوں سے بات کر رہے تھے اتنے میں سامنے سے مسلم لیگ ن کے ایک ایم این اے آتے دکھائی دئیے سینیٹر صاحب پیچھے مڑے اور پاس سے گزرتے مسلم لیگ ن کے ایم این اے کو شرارت سے پکارا ”اوئے پٹواری میری گل سن کے جائیں” پٹواری صاحب معذرت ایم این اے صاحب مسکراتے ساتھ ہی کھڑے ہو گئے۔۔

سینیٹر صاحب دوبارہ صحافیوں کی جانب متوجہ ہو گئے۔۔ اور مسلم لیگ ن کی کرپشن کو بےنقاب کرنے میں اپوزیشن کی کوششوں پر روشنی ڈالنے لگے۔۔ پیچھے مڑے اور ایم این اے کی گلے میں ہاتھ ڈالے کان میں کوئی بات کہتے دونوں ہنستے مسکراتے اندر چلے گئے۔۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے ایک سینیٹر صاحب پی ٹی آئی کی سیاست کو بےوقوفانہ قرار دیتے ہوئے جیسے ہی پیچھے مڑے تو پیچھے کھڑے پی ٹی آئی کے سینیٹر کو دیکھ کر سلام دعا کرنے کے لیے ٹہر گئے۔۔

جماعت اسلامی کی رکن قومی اسمبلی اپنی پاٹ دار آواز میں خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بعد آگے بڑھیں تو رستے میں پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی کو دیکھتے ہی انہوں نے گلے ملتے ہوئے اسلام و علیکم میری بہن کیسی ہیں آپ کہا۔۔

جے یو آئی ف، اے این پی اور پی ٹی آئی کے اراکین پارلیمنٹ لیفٹ کے پاس کھڑے خوش گپیوں میں مصروف نظر آئے۔۔

میری نظر موبائل پر پڑی فیس بک پر ایک دوست کا اسٹیٹس دیکھا میری پسندیدہ سیاسی جماعت کے قائد کے حوالے سے مضحکہ خیز کارٹون پوسٹ کر رکھا تھا غصے کی ایک لہر نے مجھے اپنی لپیٹ میں لیا۔

میں نے فٹافٹ نیچے کمنٹ کیا بس پھر کیا بحث چھڑ گئی۔۔ بات سیاست سے ہوتی ہوئی ذاتیات پر آ گئی ایک لمحے میں مجھے محسوس ہوا کہ میرا غصہ نفرت میں بدل رہا ہے۔۔

یہ ایک میری داستان نہیں ہے روز سیاست پر بحث کرتے اپنی اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کا دفاع کرتے ہم لوگ اپنے ہی کسی جملے سے اپنے پیاروں کو اپنے دوستوں کو عزیزوں کو نا جانے کتنے طعنے دے جاتے ہیں۔۔

بلاوجہ کی ناراضگیاں پالتے ہم یہ نہیں جانتے کہ ہمیں ڈیوائڈ کرنے والے کہیں ہم پر روول کر رہے ہیں اور کوئی روول کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔۔

اپنے مفادات کی خاطر ہمیں الجھائے رکھنے والے ہمیں اپنے شیر، جیالے، اور ٹائیگر کہہ کہہ کر ہمارا سیروں خون بڑھاتے ہیں اور انہی کے دفاع میں ہم اپنا خون جلائے جاتے ہیں۔

بات صرف اتنی ہے کہ ہم جذباتی قوم ہیں جہاں پاکستان کا نام آ جاتا ہے ہم مرنے مارنے پر آ جاتے ہیں جو ہمیں اپنے طور پر پاکستان کے لیے مخلص لگتا ہے ہم اسے ہیرو بنا ڈالتے ہیں،اس کے لیے لڑائیاں اور دشمنیاں مول لیتے ہیں۔۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست میں ضرور دلچسپی لیں مگر اپنے پیاروں سے اس بحث میں الجھ کر اپنے رشتے نہ خراب کریں۔۔

میرے آپ اور پوری قوم کے سامنے ایک دوسرے کی برائیاں کرنے والے بھی اندر سے سچے پکے دوست ہیں تو میری مانیں اس بحث میں پڑ کر لڑنے مرنے اور ایک دوسرے پر ذاتی اور سیاسی حملے کرنے سے گریز ہی کریں۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے