عوام کے خون پر پلنے والا نظام

اللہ کے نبیؐ کا فرمان ہے ہر امیر و حاکم (حکومت کرنے والا)چاہے وہ صرف دس آدمیوں پر حکمران ہی کیوں نہ ہو قیامت کے دن اس طرح لایا جائے گا کہ اس کی گردن میں طوق ہو گا یہاں تک کہ اس کو اس طوق سے اس کا (عوام سے کیا گیا) عدم نجات دلائے گا یا پھر اس کا عوام پر کیا گیا ظلم اسے ہلاک و برباد کر دے گا۔ (تخریج مشکوٰۃ المصابیع 3625، صح الجامع 5695)

سپہ سالار پاکستان نے دو روز قبل کوہاٹ میں سگنل رجمنٹ کے دورے میں بے رحم احتساب کی
بات کر کے عوام کے دل موہ لیے انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ملک میں دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے ضروری ہے کہ بے رحم احتساب کیا جائے ان کے اس بیان پر ہاہ ہاہ کار مچ گئی۔ ابھی اس بیان کی بازگشت موجود تھی کہ اگلے روز انہوں نے پاک آرمی کے 11آفیسران کو کرپشن کے الزام میں ملازمت سے برطرف کر دیا۔ یہ عین اس وقت ہوا جب پاکستان کے ہر دلعزیز اور محبوب وزیراعظم کابینہ کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ دوران اجلاس جب انہیں یہ خبر ملی تو واقفان حال بتاتے ہیں کہ ان کے چہرے لٹک گئے کابینہ اجلاس میں وزیرقانون زاہد حامد جو کسی زمانے میں مشرف کے ’’راج دلارے‘‘ تھے بعد میں میاں کو پیارے ہو گئے نے تجویز پیش کی کہ نئے انتخابات کا اعلان کر دیا جائے ان کی اس تجویز کو باورچی کابینہ نے مسترد کر دیا۔
پانامہ کیس میں شریف خاندان کا نام سامنے آنے کے بعد ان کے ’’نو رتن‘‘ یہ کہہ رہے ہیں کہ کسی کے پیٹ میں مروڑ ہے تو عدالت چلے جائیں۔ یعنی وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عدالت جاؤ کیس دفن کر دو۔ ہماری عدالتیں وہ عدالتیں نہیں جو صاف شفاف بنیادوں پر کیس کی چھان بین کریں یہ توہین عدالت نہیں ہماری عدلیہ اچھی تاریخ نہیں رکھتی ماضی کے اوراق پلیٹ کر دیکھیے جسٹس رفیق تارڑ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو سبق سکھانے کیلئے بریف کیس لے کر کوئٹہ جاتے ہیں تا کہ ججوں کو خریدا جا سکے یہ وہی کیس تھا کہ جس میں میاں نواز شریف اپنے پہلے دور اقتدار میں اپنے بڑبولوں کے ساتھ عدالت عالیہ پر چڑھ دوڑے۔ چیف جسٹس نے عدالت کے پچھلے دروازے سے نکل کر اپنی جان بچائی۔ جو اقتدار میں آتے ہیں وہ عدالت کو عدالت نہیں رہنے دیتے بلکہ ججوں کو بریف کیس پیش کرتے ہیں اور اپنی مرضی کے فیصلے لیتے ہیں۔

ماضی میں ان گنت عدالتی کمیشن بنے اول تو کوشش کی گئی کہ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جا سکیں ثانیاً کسی سرپھرے جج نے صحیح معنوں میں کیس کی چھان بین کی تو اس کیس کو دبا دیا گیا ۔ میمو گیٹ سکینڈل، جسٹس حمود الرحمن کمیشن، ریٹنل پاور کیس، نندی پور پاور پراجیکٹ یہ سب کیس سردخانے میں پڑے ہوئے ہیں۔ عدالتی کمیشن بنانے کا مقصد ان کے پیچھے چھپنا ہے مجھے نہیں لگتا کہ اب کی بار عوام ان لٹیرے حکمرانوں کو عدالتی کمیشن کے پیچھے چھپنے دے گی۔ مجھے اس وقت پرانے امریکی گیت جو لیڈ بیلی نے گایا تھا کے بول ذہن میں آ رہے ہیں۔ ’’دلیر اور آزاد لوگوں کی سرزمین پر کوئی سرمایہ دار میرے سر کو نہیں جھکا سکتا‘‘ بے شک وہ وقت ضرور آتا ہے جب قوم خواب غفلت سے جاگ جاتی ہے اور اپنی قسمت کی ڈور اپنے ہاتھوں میں لیتی ہے لیکن حالات اس وقت تک نہیں بدلتے جب تک عوام متحرک نہ ہوں اور اپنی آواز بلند نہ کریں ایک انقلابی تبدیلی ہی ملک کو ملک کو ڈاکوؤں ، چوروں اور رسہ گیروں کے چنگل سے آزاد کروا سکتی ہے۔ چہرے بدلنے سے کچھ نہیں ہو گا ، نظام بدلنا ہو گا، یہ نظام اتنا گل سڑ چکا ہے کہ اس سے عوام کو چھٹکارہ دلانا ضروری ہے یہ نظام کی خوراک عوام کا خون ہے۔ اب کی بار عوام سڑکوں پر نہ نکلی تو حکمرانوں کے بچے ہم پر کبھی مریم و حمزہ اور کبھی بلاول اور بختاور کی صورت میں مسلط ہونگے۔ حکمرانوں کی دولت جمع کرنے کی ہوس ختم نہیں ہو رہی بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس میں شدت آ رہی ہے۔ یہ بیمار ہوتے ہیں تو عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے بیرون ملک علاج کرواتے ہیں غریب کا بچہ کوڑے کرکٹ میں اپنا رزق تلاش کرے ، گندے پانی سے پیاس بجھائے اور ٹاٹ سکولوں کی نعمت سے بھی محروم رہے اور لٹیروں کے بچے یورپ کے مہنگے سکولوں میں تعلیم حاصل کریں ان کے پاس سرمایہ ان کی محنت کا نہیں بلکہ لوٹ کھسوٹ اور امانت میں خیانت کر کے جمع کیا ہوا ہے۔ آخر کب تک کوئی برداشت کر سکتا ہے۔

ہم ڈوب رہے ہیں ہمیں یہاں پہنچانے والا کوئی نہیں ہم خود کشتی کھینچ کر یہاں لائے ہیں اپنے ہی لالچوں کے تعاقب میں، جب ہم نے قوم کی حیثیت سے سوچنا چھوڑ دیا اور گروہوں میں بٹ گئے جب ہم نے گروہ کے مفاد میں اپنا اپنا مفاد ڈھونڈا جب مفاد کو انصاف پر ترجیح دی جیبیں بھرنے کی خاطر دل خالی کیے پھر لٹیروں کی ٹولیاں راج کرنے لگیں ہم جھوٹ پر پلنے لگے جھوٹ ہماری خوراک اور اوڑھنا بچھونا بن گیا ، حق پرست منہ چھپانے لگے، جھوٹوں عزتوں کے محل ہماری آنکھوں میں چمکنے لگے پھر نہ کسی منزل کا نشان رہا اور نہ پانی پر کوئی راہ نظر آئی اپنی بے بسی کا رونا رو رہے ہیں ہر کوئی لوٹ کھسوٹ میں مصروف عمل ہے جو ملا ، جہاں سے ملا جیب میں ڈالا اور چلتا بنا۔ اب سیدھے راستے پر کوئی منزل نہیں صرف ٹھوکریں لگتی ہیں راہ سنسان پڑی ہے اس اندھیرے میں ظلم کا راج اور اللہ کے وعدے کے مطابق ایسے حکمران ہم پر مسلط ہیں اللہ کا وعدہ کسے یاد ہے یہی سب کچھ ہے یہیں رہیں گے آخرت اس وقت ہو گی جب مریں گے انہوں نے ساری عمر یہاں رہنا ہے آصف زرداری نے للکارا تھا ہم نے ساری عمر یہاں رہنا ہے آپ تو تین سال کیلئے ہو ۔ موت ان کے نزدیک کسی شے کا نام نہیں جب بھی احتساب کی بات کی جائے تو جمہوریت یاد آ جاتی ہے کسی نے پوچھا تھا کہ کیا جمہوریت جمہور کی بقاء کیلئے ہے یا جمہور جمہوریت کی بقاء کیلئے؟ جو نظام عوام کے خون پر پلتا ہو کیا اس کا ساتھ دینا قوم سے وفاداری ہو سکتی ہے

اللہ کے نبیؐ کا فرمان ہے ہر امیر و حاکم (حکومت کرنے والا)چاہے وہ صرف دس آدمیوں پر حکمران ہی کیوں نہ ہو قیامت کے دن اس طرح لایا جائے گا کہ اس کی گردن میں طوق ہو گا یہاں تک کہ اس کو اس طوق سے اس کا (عوام سے کیا گیا) عدم نجات دلائے گا یا پھر اس کا عوام پر کیا گیا ظلم اسے ہلاک و برباد کر دے گا۔ (تخریج مشکوٰۃ المصابیع 3625، صح الجامع 5695)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے