ارضِ پاک:غنڈوں میں پھنسی رضیہ

جس روزایرانی صدرجناب حسن روحانی صاحب پاکستان کےدورےپرآئےاسی روزہی میڈیاپربھارتی ایجنسی’’را‘‘کےحاضرسروس آفیسرکلبھوشن یادیوکی گرفتاری کی خبرنشرہوئی ۔کلبھوشن نےراہداری منصوبےکوناکام بنانے،گوادر،کراچی میں بدامنی پھیلانے،مذہبی فسادات کرانے،علیحدگی پسندوں کےساتھ روابط اور’ را‘کی پاکستان میں سرگرمیوں کی مانیٹرنگ پرمامورہونےکااعتراف کیا۔کلبھوشن نےایرانی بندرگاہ’ چاہ بہار‘سے2013میں پاکستان مخالف سرگرمیوںکاآغازکیااوراب بھی اس کےساتھی وہاں تعینات ہیں۔انہوں نے’را‘’این۔ڈی۔ایس‘اورایرانی بارڈرفورسزکےگٹھ جوڑسےمتعلق بھی انکشافات کئے۔کلبھوشن کےان انکشافات سےظاہرہوتاہےکہ پاکستان 3ہمسایوں کےدرمیان پھنساہواہےاوریہ ممالک مبینہ طورپرارضِ پاک کوغیرمستحکم کرنےکےایجنڈےپرمتفق ہیں۔

جغرافیائی اہمیت کےپیشِ نظرپاکستان پہلےدن سےہی دشمن طاقتوں کی سازشوں کامحور ومرکزرہاہے۔ہمسایہ ممالک چین،بھارت،ایران اورافغانستان میں سےپاکستان کےچین کےعلاوہ کسی ہمسائےسےمثالی تعلقات نہیں۔بھارت کےساتھ روزاول سےہی ہمارےتعلقات خطرناک حدتک خراب رہےہیں اورجنگیں بھی ہوچکی ہیں۔مسئلہ کشمیردونوں ممالک کےدرمیان اہم مسئلہ ہےجواب تک حل نہیں ہوپایا۔جس کےسبب معاملات درست سمت نہیں چل پاتے۔پانی کامسئلہ بھی زیرِبحث رہتا ہےاورسیلاب کےموسم میں بھارت پاکستانی دریاؤں میں پانی چھوڑدیتاہےجس سےدریائی علاقوں کوبہت نقصان اٹھاناپڑتاہے۔ہتھیاروں کی دوڑ میں دونوںممالک ایک دوسرےسےبرتری حاصل کرنےکےلئےبجٹ کابڑاحصہ دفاعی معاملات پرلگاتےہیں اورتعمیروترقی کی طرف سفرسست روی کاشکارہے۔سرحدوں پردراندازی معمول کاحصہ ہے۔دہشتگردی کےواقعات پرایک دوسرےکوتنقیدکانشانہ بنایاجاتاہے۔

افغانستان ایک غیرمستحکم ریاست کےطورپرموجودہے۔پاکستان اورافغانستان کےباہمی تعلقات اچھےرہےہیں مگرطالبان حکومت کےخاتمےکےبعدکرزئی انتظامیہ پاکستان کی مخالف رہی اورپاکستان پردشنام طرازی کرتی رہی۔اس کےبھارت سےاچھےتعلقات رہےاورپاکستان کےخلاف بھارت کاساتھ دیا۔موجودہ افغان انتظامیہ بھی کرزئی کی طرح پاکستان مخالف لابی کےنزدیک ہے۔سرحدوں پردراندازی،پاکستانی طالبان کی موجودگی،بارڈرزکی نگرانی،سمگلنگ اورڈیورنڈلائن کےحوالےسےافغانستان کامتنازعہ مؤقف باہمی تعلقات میں استحکام پیداہونے میں رکاوٹ ہیں۔اہم مسئلہ افغان سرزمین پر’ را ‘کی سرگرمیاں ہیں جو پاکستان کوغیرمستحکم کرنےمیں مصروف ہے۔افغان انتظامیہ پاکستان پرالزام عائدکرتی ہے کہ وہ افغان شدت پسندوں کی معاونت کرتاہےنیزافغانستان پرجنگ مسلط کرنےکاذمہ دار بھی پاکستان کوسمجھتی ہے۔موجودہ حکومت سےپاکستان کےتعلقات کچھ بہترہوئےہیں اور الزامات کی بھرمارکرنےکی بجائےدونوں ملکوں کی اعلیٰ عسکری وسیاسی قیادت نےباہم بات چیت کرکےمسائل کےحل کی کوششیں کی ہیں اوران کوششوں کوعملی جامہ پہنانےکےلئے سنجیدگی سےکام کرنےکاعزم بھی کیاہے۔

تیسراپڑوسی ایران ہےجس سےپاکستان کےتعلقات ہمیشہ بہتررہےہیں۔انقلاب ایران سےپہلےباہمی تعلقات میں استحکام رہاہےاوردونوں ممالک باہمی تعاون کرتےرہےہیں۔انقلاب کےبعدبھی تعلقات میں کوئی منفی تبدیلیاں نہیں آئیں بلکہ تعلقات درست سمت چلتےرہے ہیں۔ایرانی صدرحسن روحانی پاکستان کےدوروزہ دورےپرآئےاورسیاسی وعسکری قیادت سےملاقاتیں کیں۔دونوں ملکوں کی قیادت نےباہمی تعلقات کومزیدوسعت دینےپراتفاق کیا جبکہ خطےمیں امن و امان کی صورتحال پربھی گفتگو کی۔ایرانی انقلاب کوپاکستان برآمدکرنےکی کوششوںکےبعدپاکستاں میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی جس میں اب تک ہزاروں لوگ مارےجاچکےہیں۔

پاکستان میں ایرانی مداخلت کوئی نئی یا ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ ایرانکےتعاون سے چلنےوالی تنظیمیں یہاں آزادانہ کارروائیاں کرتی رہی ہیں۔کچھ عرصہ قبل ایک پولیس آفیسرنےکراچی میں پریس کانفرنس کرکےایرانی حمایت یافتہ تنظیموں کےٹارگٹ کلرزکےبارےمیں تفصیلات فراہم کیں کہ وہ ایران سےتربیت حاصل کرکے یہاں بدامنی پھیلانےمیں ملوث ہیں۔اسی طرح ایرانی بارڈرفورسزبھی سرحدی خلاف ورزی کی مرتکب ہوتی ہیں اورایرانی صدر کےدورہ کے فوراََبعدپاکستانی سروےٹیم کی موجودگی میں بھی ایرانی سرحدسےمارٹرگولےبرسائےگئےمگرپاکستان اس سب کوکچھ مصلحتوں کی وجہ سےبرداشت کرتاآرہاہے۔

پاکستان نےہمیشہ ہی ایران سےبہترتعلقات کی کوشش کی ہےاورایران مخالف جماعتوںکےخلاف کارروائیاں کی ہیں،ریکی برادران کو پکڑکرایران کےحوالےکیاہے۔ایران کےجوہری پروگرام کی حمایت کی اورعالمی سطح پرایران کاساتھ دیا۔ایران عراق جنگ میں ایران کی وجہ سےہی غیرجانب داررہااورحال ہی میں یمن اوراسلامی عسکری اتحادکےمعاملےمیں بھی ایرانی تحفظات کاخیال رکھتےہوئےمحتاط رویہ اپنایا۔ایرانی قیادت سےملاقات میں آرمی چیف اوروزیرِداخلہ نےکلبوشن کےاعتراف پربات چیت کی ۔جبکہ ایرانی صدرنےآئی ایس پی آرکےٹویٹ پرردِعمل کااظہارکرتے ہوئےکہاکہ’’راکامعاملہ زیرِبحث نہیں آیا،جب بھی پاکستان اورایران قریب آنےلگتےہیں تولوگ اسی طرح کی افواہیں پھیلاناشروعکردیتےہیں۔‘‘

کمزورخارجہ پالیسی کےسبب پاکستان بھارت کےخلاف عالمی سطح پرآوازبلندکرنےمیں ناکام رہاہے۔جبکہ ایران کےساتھ تعلقات کوبہتررکھنےکےلئےپاکستان ایران کی سرگرمیوں کونظراندازکرتاآیاہےاورکبھی ایران سےاس حوالےسےبڑی سطح پراحتجاج نہیں کیا۔یہ پہلا موقع تھاکہ پاکستان کی اعلیٰ سیاسی وعسکری قیادت نےایران کواپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونےپربات کی اورایرانی قیادت کوپیغام دیاکہ وہ’ را ‘کی سرگرمیوںکو کنٹرول کرنےمیں ہماری مددکرے۔آئی ایس پی آرنےگزشتہ روزپریس کانفرنس میں بھی اس بات کودہرایاکہ’’اگربرادرملک کی سرزمین پاکستان کےخلاف استعمال ہورہی ہےتواسے اس کانوٹس لیناچاہئے۔‘‘

پاکستان نےہمیشہ پڑوسی ممالک خصوصاََ ایران سےبہترتعلقات کی کوشش کی ہےاگراب ایک دشمن ایجنسی کےآفیسرکےبیانات پر پاکستان نےایران سےبات کی ہےتوایران کوچاہئےکہ وہ ذمہ داری کامظاہرہ کرےاور برادراسلامی ملک کےاعتمادپرپورااترے۔پاکستان اورپڑوسی ممالک کےمقتدرطبقوں کویہ بات سمجھنی چاہئےکہ خطےکاامن سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔اس کےلئےایک دوسرےسےتعاون کی راہ ہموارکرنی چاہئےنہ کہ ایک دوسرےکےخلاف سازشوں میں مصروف رہ کرخطےکوخون آلودکرنےکی کوشش کریں۔

اگرپڑوسی ممالک اپنی ذمہ داری کونہیں نبھاتےتوپاکستان کوچاہئےکہ وہ اپنی کمزوریوں کاجائزہ لےاورمضبوط خارجہ پالیسی تشکیل دےکرعالمی سطح پراپنامقدمہ پوری ذمہ داری سےلڑے۔خودبھی ہمسایہ ممالک میں مداخلت نہ کرےاوران ممالک پربھی واضح کرےکہ ان کی مداخلت کوقطعی برداشت نہیں کیاجائےگا۔بیرونی ممالک کےآلہ کاروں کوسخت سزائیں دی جائیں تاکہ آئندہ کوئی بھی دشمن ہمارےلوگوں کوہمارےخلاف استعمال نہ کرے۔اس کےساتھ ان وجوہ پربھی سنجیدگی سےغورکرنا چاہئےاوران کاسدِباب کرناچاہئےجن کےسبب سےبیرونی عناصرہمارےلوگوں کوہمارےخلاف اکساتےہیں۔عوام کوبنیادی سہولیات کی مکمل فراہمی ضروری بنائی جائےاس کےبغیربیرونی مداخلت کاسدباب نا ممکن ہی رہےگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے