اگنور ہم ( IGNORE Him )

نورین آنٹی کو ہسپتال میں دیکھ کر مجھے بہت اذیت ہو رہی تھی ،ان پر فالج کا حملہ ہوا تھا ، وہ آئی سی یو میں تھیں اور انھیں طبی امداد دی جا رہی تھی ، ان کی عمر اتنی نہیں تھی لیکن تکلیف کے احساس سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ بہت عمر رسیدہ ہو چکی ہیں ، دونوں بیٹیاں پریشان اور ان کی بیماری کی وجہ سے رو رہی تھیں جبکہ ان کے لاڈلے بیٹے کا کچھ علم نہیں تھا ۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی میری ان سے بات ہوئی تھی اور اس وقت بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ ان پر اس طرح اچانک فالج کا حملہ ہوگا ۔

نورین آنٹی کی یہ حالت مجھے بہت پہلے کہیں ماضی میں لے گئی جب ہم سب بہن بھائی بہت چھوٹے ہوا کرتے تھے وہ ہمارے گھر اپنے بچوں کے ساتھ آتی تھیں ، اصل میں وہ میری بڑی پھوپھو کی کلاس فیلو تھیں ان کی شادی کے بعد ان سے پھوپھو کا کوئی رابطہ نہیں ہو سکا تھا بس ایک دن بازار میں ایک اتفاقیہ ملاقات نے انھیں پھر سے ملا دیا اور یوں ہمارے گھروں میں پھر سے آنا جانا شروع ہو گیا ۔

آنٹی کے نٹ کھٹ قسم کے تین بچے تھے جن میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل تھا ۔ بیٹا کیونکہ اکلوتا تھا اور بہت سی منتوں اور مرادوں کے بعد پیدا ہوا تھا تو وہ اسےسرد و گرم سے بچا کر رکھتی تھیں اور اسے لاڈ پیار میں اس قدر بگاڑ دیا تھا کہ کوئی اسے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا ۔

مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ وہ اپنے بچوں علینہ ، مہوش اور حید ر کے ہمراہ ہمارے گھر آئیں اس وقت بسنت کا تہوار تھا اب حید ر کے پاس کوئی پتنگ تو تھی نہیں لیکن ظاہر ہے کہ وہی ضد کی عادت تو تھی ناں ۔ اب نیچے کی منزل پر سب موجود ہیں اور اسے کھانے کے لئے بلا رہے ہیں لیکن حیدر چھت پر گڈیاں لوٹنے میں مصروف ہے ۔ اس وقت میری امی نے نورین آنٹی کو کہا بھی کہ تمھارا بیٹا بہت بد تہذیب ہو گیا ہے تو وہ کہنے لگیں
’’ باجی پلیز آپ پریشان مت ہوں ، اکلوتا ہے ، لاڈلا بھی ہے ، وقت آنے پر ٹھیک ہو جائے آپ بس اسے اگنور ( نظر انداز ) کر دیں َ‘‘

خیر وقت آتا گیا اور حیدر بڑا ہوتا گیا ایک دن معلوم ہوا کہ اسے نشے کی لت پڑ گئی ہے اور وہ برے لڑکوں کی سوسائٹی کا شکار ہو کر کئی عوارض میں مبتلا بھی ہو رہا ہے ۔ ان دنوں آنٹی ہمارے گھر بھی آتی تھیں ، وہ کچھ پریشان سی لگتی تھیں لیکن بتاتی کچھ نہیں تھیں ان کی بہن سے ایک مرتبہ پوچھا تو وہ کہنے لگیں کہ وہ بیٹے کی وجہ سے پریشان ہے ۔ نورین آنٹی ایک گورنمنٹ کالج میں پروفیسر بھی تھیں لیکن ظاہر ہے کہ جب گھر میں پریشانی ہو تو کوئی کیسے یکسوئی برقرار رکھ سکتا ہے ۔ جب بیٹے کی طرف سے انھیں بے سکونی ملی تو انھوں نے نیند کے لئے گولیاں استعمال کرنا شروع کر دیں جس سب کا اثر ان کی ملازمت پر بھی پڑا ۔

حالیہ فالج کا حملہ بھی انھیں اسی لئے ہوا کہ انھوں نے اکلوتے بیٹے کو جو بے جا آزادی دے رکھی تھی اسکی وجہ سے وہ مزید خود سر ہو گیا اور ایک دن انھیں حیدر کی نشے کی عادت کا علم ہوا تو بہت دیر ہو چکی تھی انھوں نے جب یہ کہا کہ حیدر نشہ چھوڑ دو یہ اچھا نہیں ہے تو حیدر نے بھی انہی کے انداز میں کہا
’’ امی پلیز اگنور می ناں میں اب بڑا ہو گیا ہوں ٹھیک ہو جائوں گا ، اپنا اچھا برا سمجھ سکتا ہوں ‘‘

آج حیدر نشے کی بری عادت میں مبتلا اور ماں ہسپتال میں داخل ہے لیکن سوال صرف اتنا ہے کہ کیا ماں باپ کا فرض صرف اولاد کو جنم دینا ہی ہے کیا ان کی بہتر تربیت نہیں ، کتنی ہی مائوں کو میں نے نوٹس کیا کہ ان کے بچے کسی کے گھر جا کر بھی بدتمیزی کرتے ہیں ، دوسرے بچوں کی چیزیں چھیڑتے ہیں انھیں توڑتے ہیں ۔ دوسرے بچوں سے لڑتے جھگڑتے ہیں ۔
کھانے پینے کی چیزوں کے پیش کرنے کے ٹائم ندیدے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور بجائے اسکے کہ ان کے والدین انھیں اس برے کام سے اس گندی عادت سے روکیں وہ ان کی الٹا حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ کوئی بات نہیں بچہ ہے ٹھیک ہو جائے گا لیکن والدین یہ بھول جاتے ہیں کہ بچے بھی پھولوں کی طرح ہوتے ہیں ۔ ان کو پودوں کی طرح پانی اور کھاد ، دیکھ ریکھ کی ضرورت ہوتی ہے وقت پر ان کی نگہداشت ، مناسب کٹائی اور گوڈی پودوں کی طرح نہ کی جائے تو یہ بھی ویسے ہی بن جاتے ہیں جیسا کہ اچھے پودوں کے ساتھ خودرو بے کار جھاڑیاں اگنے لگتی ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے