سندھ اسمبلی میں 29اپریل 2016 کو نجی ٹی وی کے اینکر اقرار الحسن نے جو کچھ کیا اس کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ صوبائی اسمبلی سیکورٹی ہر شخص کو چیک کرنے کے بعد اسمبلی میں جانے دیتی ہے .صحافیوں کو بھی بغیر پاس کے اسمبلی میں نہیں چھوڑا جاتا . اسمبلی میں داخلے کے لئے آپ کے پاس دو پاس ہونے ضروری ہوتے ہیں . ایک ادارے کا پاس ، جس میں آپ کام کرتے ہیں اور دوسرا اسمبلی کا سیشن کور کرنے کا پاس تاکہ آپ اسمبلی کا اجلاس کور کر سکتے ہیں .
تمام لوگ جانتے ہیں اسمبلی میں جانا اتنا آسان کام نہیں ہوتا تاہم اقرار الحسن نے اپنی شناخت کا فائدہ اٹھا کر یہ حرکت کی جس کی وجہ سے اب سارا نزلہ ان صحافیوں پر آن گرا جو روزانہ کام کے لئے جاتے تھے . اقرار الحسن کے پری پلان ڈرامے کی وجہ سے صحافیوں کے لیے پیشہ وارانہ مسائل کھڑے ہوگئے اور وہ پابندیاں جو حکومت لگانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی ، اقرار صاحب کے ایک پروگرام کی وجہ سے میڈیا پر لگا دی گئیں . یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اقرار کا پروگرام کسی پلاننگ کا حصہ تھا .
زرا نوٹ کیجئے کہ اقرار الحسن کے پروگرام کی وجہ سے صحافیوں کے لیے کیا کیا مشکلات کھڑی ہوئی ہیں .
(1)سندھ اسمبلی اورسندھ سیکریٹریٹ میں صحافیوں کے لئے سختی کردی گئی ہے ۔
(2)اسمبلی کے تمام پاسز منسوخ کردئے گئے ہیں۔
(3)اسمبلی کی حدود کے اندر صحافیوں کو گاری پارکنگ کی سہولت ختم کردی گئی ہے ۔
(4)میڈیا پاسز بنانے کا اختیار محکمہ اطلاعات سے واپس لے لیا گیا۔
(5)میڈیا کے پاسز کی تعداد محدود کردی گئی ہے اور مزید پالیسی بدھ کو بنائی جائے گی۔
(6)انتہائی نچیلے درجے کے 51 عام ملازمین کے خلاف کارروائی کا آغازکیاگیاہے ۔
(7)تمام متعلقہ حکام کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ صحافیوں سے دور رہیں۔
(8)اسمبلی میں داخلے سے قبل صحافیوں کی مکمل جامہ تلاشی ہوگی۔
(9)مستقبل میں بڑے الیکٹرنک میڈیا کے اداروں کے لئے 4 سے 5 اور پرنٹ کے لئے 3سے4 پاسز جاری کرنے کی پالیسی پرغور۔
(10) ہفتہ روز کے لئے ایک پاس جبکہ باقیوں کے لئے پاس جاری نہ کرنے پر غور۔
(11)ارکان اسمبلی اور سرکاری حکام کا پروٹوک کو حسب معمول جاری رہے گا۔
اب فیصلہ دوست کریں کہ اقرار کے عمل کا فائدہ کس کو اور نقصان کس کو ہوا؟