خالق کے وجود کا انکار اور عقلی طرزِ استدلال

دہر زمانے کو کہتے ہیں، اور دہریت یہ ہے کہ ایک شخص یہ اعتقاد رکھے کہ زمانہ ہی تخلیق کرتا ہے اور زمانہ ہی مارتا ہے، یعنی اس کائنات کے خالق کا کوئی وجود نہیں، بلکہ یہ کائنات خود سے ہے ۔ اس کائنات میں جاندار چیزیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر مر کرختم ہو جاتی ہیں اور یہ چکر مسلسل خود بخود چل رہا ہے۔ انگریزی میں ایسے یا اس سے ملتے جلتے افکار کو atheismکہتے ہیں۔ 2005کے ایک سروے کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا 2.3فیصد خالق کے ہونے کو یقینی تصور نہیں کرتا ۔ پوری دنیا میں دہریوں کی شرح کے لحاظ سے سویڈن سر فہرست ہے، جہاں یہ شرح تقریباً85 فیصد ہے، جبکہ فرانس یہ شرح32فیصد ،جرمنی میں 20فیصد، برطانیہ میں 17فیصد ہے ۔ حال ہی میں امریکہ میں کیے جانے والے سروے کے مطابق امریکہ میں یہ شرح 20فیصد ہے۔

پاکستان میں دہریت کے خیالات روسی کیمونسٹ آئیڈیالوجی سے متاثر لوگوں کے ذریعے پھیلنا شروع ہوئے ۔ پاکستان میں سوشلسٹ تحریکوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک خاطر خواہ تعداد دہریت کی سوچ کی حامل تھی۔ یہ لوگ مذہب کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے تھے اور اپنی فکری نشستوں میں مذہب سے نفرت اور بیزاری کا کھلم کھلا اظہار کرتے تھے۔ تاہم دہریت کی یہ سوچ اسلامی دنیا سمیت پاکستان میں سوشلسٹ آئیڈیالوجی کے پھیلنے میں بہت بڑی رکاوٹ تھی کیونکہ پاکستان کا معاشرہ ایک مذہبی معاشرہ تھا اور دہریت کی سوچ ان کے لیے کسی طور قابل قبول نہ تھی۔ روس میں کیمونزم کے زوال کے بعد پاکستان میں موجود سوشلسٹ تحریکوں کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی۔

آج پاکستان میں معاشرے کے کچھ طبقوں میں پھیلنے والی دہریت کی سوچ سوشلزم کی وجہ سے نہیں بلکہ مغربی کفریہ نظام کے نفاذ کے زہریلے نتائج میں سے ایک ہے، سرمایہ دارانہ نظام سے نکلنے والی آزادیوں کو بھر پور انداز سے اپنانے اور اپنی لذتوں کو پورا کرنے کی خاطر جینے اور جانوروں جیسی زندگی گزارنے کے لیے دہریت کی سوچ جواز فراہم کرتی ہے ۔ یہ وہی حقیقت ہے جسے اللہ نے قرآن میں بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ جاثیہ میں ارشاد فرمایا:

(وَخَلَقَ اللَّہُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزَی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُونَ (22) أَفَرَأَیْْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَہَہُ ہَوَاہُ وَأَضَلَّہُ اللَّہُ عَلَی عِلْمٍ ۔۔۔ (23) وَقَالُوا مَا ہِیَ إِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَا إِلَّا الدَّہْرُ وَمَا لَہُم بِذَلِکَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ ہُمْ إِلَّا یَظُنُّونَ (24
)) اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حکمت سے پیدا کیا ہے اور تاکہ ہر شخص اپنے اعمال کا بدلا پائے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور باوجود جاننے کے (گمراہ ہو رہا ہے ) …۔ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری زندگی تو صرف دنیا ہی کی ہے کہ (یہیں) مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں تو زمانہ مار دیتا ہے اور ان کو اس کا کچھ علم نہیں صرف ظن سے کام لیتے ہیں۔ ‘‘

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق کے بعد ایسے شخص کا ذکر کیا جو اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور پھران لوگوں کی فکر کو بیان کیا جو دوبارہ جی اٹھنے کا انکار کرتے ہیں۔ دہریت کے اعتقاد کا لازمی نتیجہ قیامت کے دن کا انکار ہے اورجو قیامت کے دن پر یقین نہیں رکھتا اس کے لیے اپنی خواہشات کو معبود بنانے سے کوئی امر مانع نہیں ہے۔

اگرچہ پاکستان میں خالق کا انکار کرنے والے لوگوں کی مجموعی تعداد قلیل ہے لیکن elite طبقے میں ایسے لوگ بکثرت مل جاتے ہیں جو اگرچہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمان کہلانے پر فخر کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ سوچ بھی رکھتے ہیں کہ اللہ کے وجود کو قطعی طور ثابت کرنا ممکن نہیں۔ اس سوچ کی انتہاء وہ لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ پر ایمان لانا نتائج کے لحاظ سے اللہ پر ایمان نہ لانے سے بہتر ہے۔ کیونکہ اگر آپ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق نہیں، تو آپ کا یہ اعتقاد نتائج کے لحاظ سے مرنے کے بعدآپ کے لیے مسئلے کا باعث نہیں بنے گا۔ لیکن اگر آپ اللہ پر یقین نہیں رکھتے اور مرنے کے بعد حقیقت یہ کھلی کہ اس کائنات کا خالق ہے تو پھر آپ مشکل میں پھنس جائیں گے، لہٰذا بہتر ہے کہ کائنات کے خالق کے موجود ہونے کا اعتقاد اختیار کیا جائے ۔ یہ خوبخو وہی سوچ ہے جو مغربی مفکر William Jamesنے پیش کی ۔ اگرچہ اکثر مغربی مفکرین بھی اس طرزِ فکر کو درست نہیں سمجھتے کیونکہ یہ سرے سے کوئی فکر نہیں بلکہ یہ تو محض نفع و نقصان کی بنیاد پر افکارمیں ایک سمجھوتہ ہے۔

اسلام مسلمانوں کے فکری زوال کے اس دور میں محض عبادات اور رسوم و رواج تک محدود ہو چکا ہے۔ مسلمانوں کے اذہان میں یہ تصور کسی قدر دھندلا چکا ہے کہ اسلام ایک مضبوط فکر بنیادوں پر استوار ایک آئیڈیالوجی ہے جس کا عقیدہ عقلی ہے اور یہ عقلی دلائل شک و شبے سے بالا ہیں۔ چنانچہ یہ فکری کمزوری وہ زرخیز زمین ہے جس میں atheismکے دعویدار اپنے افکار کی آبیاری کی کوشش میں ہیں اور لوگوں کے خالق کے موجود ہونے کے ثبوت کے متعلق شکوک و شبہات میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم اسلام کا انسانوں کی فطرت کے مطابق ہونا،اسلام کے احکامات کا حیرت انگیز حد تک اعلیٰ ہونا اور اسلام کا بطور عقیدہ باقی تمام عقائد سے برتر، واضح ،جامع اور جھول سے خالی ہونا atheistکی دعوت کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور ہم دیکھتے ہیں تمام تر فکری کمزوری کے باوجود مسلمان اسلام کے عقیدے سے مضبوطی سے چمٹے ہوئے ہیں اور اسے ہی درست سمجھتے ہیں۔

جو چیز ہمارے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے سامنے اسلامی عقیدہ کی فکری بنیادوں کو واضح اور شفاف کریں تاکہ وہ کسی بھی قسم کی تشکیک سے محفوظ رہیں۔ دہریت کا تصور اسلام کے لیے نیا نہیں ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے جزیرہ نما عرب میں اسلام کی دعوت کا آغاز کیا تو اس وقت بھی ایسے لوگ موجود تھے جو اس کائنات کے لیے ایک خالق کے وجود کا انکار کرتے تھے۔ زمانہ جاہلیت کے شاعر کا شعر ہے:
حیاۃ ثم موت ثم نشر حدیث خرافات
یا ام عمرو زندگی، پھر موت اور پھر دوبارا اٹھایا جانا اے امِ عمرو،یہ تو محض خرافات ہے

مسلمانوں نے ہر دور میں ایسے لوگوں کو چیلنج کیا اور ان کے تصور کے بودے پن کو بے نقاب کیا۔ ماضی کے مسلمان علماء کی کتابوں میں جابجا ملحدین کے ساتھ مسلمان علماء اور متکلمین کے بحث و مباحثے کا تذکرہ ملتا ہے ۔ بعض مفسرین نے اپنی تفاسیر میں ان مباحث کو بیان کیا ہے کہ جو اس دور میں اور خاص طور پر عباسی خلفاء کے دور میں ہوئے،جن میں خلیفہ مامون الرشیدکا نام بہت نمایاں ہے۔ ان مباحثوں میں خلیفہ بھی شرکت کیا کرتا تھا اور اس کے لیے ہفتے میں باقاعدہ ایک دن مقرر کیا گیا تھا ۔

تاہم ان مباحث میں یہ چیز نہایت واضح ہے کہ اس وقت مسلمان یونانی فلسفہ اور منطق سے متاثر ہو چکے تھے ۔ اور اللہ کے وجود پر ان کے دلائل میں منطق کا استعمال نمایاں تھا۔ مثال کے طور پر ابن مسکویہ خالق کے ثبوت کی دلیل میں لکھتے ہیں: ’’ہر جسم کے لیے حرکت ضروری ہے،کوئی طبعی جسم ایسا نہیں کہ جو متحرک نہ ہو اور ہر متحرک کے لیے ایک محرک کا ہونا ضروری اور لازمی ہے کہ جس پر تمام حرکات کا سلسلہ ختم ہوتا ہو ، وہی محرکِ اول ان تمام اجسام و اعیان کا خالق اور بنانے والا ہو گا۔ اور چونکہ یہ امر بدیہی ہے کہ محرک متحرک کے سوا کوئی اور ہونا چاہیے اس لیے یہ ثابت ہو گیا کہ وہ محرک اول متحرک نہیں ہو سکتا ۔ کیونکہ محرک اول کے لیے ضروری ہے کہ وہ حرکت سے پاک اور منزہ ہو ورنہ اگر محرکِ اول متحرک ہو گا تو پھر اس کے لیے بھی محرک ماننا پڑے گا ۔ اور جب ایک اور محرک نکل آیا تو جس کو محرک اول فرض کیا تھا وہ محرک اول نہ رہا اور اس کی اولیت جاتی رہی۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ محرک اول جسم نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ ہر جسم کے لیے متحرک ہونا لازمی اور ضروری ہے‘‘۔

مندرجہ بالا دلیل میں منطقی طریقہ استدلال بہت نمایاں ہے اور درحقیقت یہ ا سی حادث اور قدیم کی بحث سے ماخوذ ہے جو ارسطو نے بیان کی تھی ۔ منطقی طریقہ استدلال میں کیا خامیاں ہیں اور اسے عقیدہ اور احکامات کے لیے کیوں استعمال نہیں کیا جا سکتا ، یہ ایک علیحدہ بحث ہے جو کسی اور موقع پر کی جائے گی۔ یہاں میں صرف اس بات کو بیان کرنے پر اکتفاء کرتا ہوں کہ اس دور کے مفکرین اور علماء کی طرف سے منطق کے استعمال نے مسلمانوں کے طرزِ فکر کو متاثر کیا اور اس کے نتیجے میں اسلامی عقائد کی فروعات میں جو کجی اور پراگندگی پیدا ہوئی اس کے اثرات آج تک موجود ہیں۔

سولہویں صدی میں یورپ میں پیدا ہونے والی فکری بیداری اور سائنسی ترقی نے خالق کے ہونے یا نہ ہونے کی بحث کو ایک اور جہت دی ۔ مغرب نے اس فکری انقلاب ،سائنسی ترقی اورپے در پے ایجادات کو انسانی عقل کے superiorہونے اور نتیجتاً انسان کے قانون ساز ہونے کے جواز کے طور پر استعمال کیا۔ آج سائنسی نقطہ نظر کوکسی بھی phenomenon کے پرکھنے کے لیے پیمانہ بنا دیا گیا ہے ۔ پس ہر وہ چیز جو سائنس سے ثابت ہے وہ عقلی ہے اوردرست ہے اور اگر مذہب کی کوئی چیز سائنس کے اصولوں کے ذریعے ثابت نہیں تو وہ عقل کے معیار سے گری ہوئی اور فرسودہ ہے۔ اور چونکہ سائنس کے نزدیک تجربے یا experimentationکے ذریعے ہی ایک چیز کے وجود یا عدم وجود کو قطعی طور پر ثابت کیا جا سکتا ہے لہٰذا خالق کے وجود کے متعلق سائنس قطعی نتیجے پر پہنچنے سے قاصر ہے، کیونکہ سائنس صرف انہی چیزوں کو تجرباتی عمل سے گزار سکتی ہے جو کہ مادہ ہیں اور خالق مادہ نہیں ہے۔ سائنس کے لیے کوئی ایساdetectorبنانا ممکن نہیں جو ایسی چیز کو detectکر سکے کہ جس کی صفات مادے کی صفات سے مختلف ہوں لہٰذا سائنسی آلات کے ذریعے خالق کی موجودگی کو detect کرنا ممکن نہیں ۔ اسی طرح سائنس کائنات کی تخلیق کے بارے میں بھی قطعیت کے ساتھ کچھ کہنے سے قاصر ہے ،بگ بینک اور اسے طرح کی دوسری تھیوریاں محض مفرضے ہی ہیں،کیونکہ سائنسی تجربے سے انہیں proveیا disproveکرنا محال ہے۔

سائنس کی خاص انداز سے تعلیم کا دہریت کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ مغرب میں کیے جانے والے متعدد سروے اس بات کو ظاہر کر چکے ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے early schoolingکے بعد ہی تعلیم کو خیر باد کہہ دیا ، ان میں دہریت کی شرح ان لوگوں کے مقابلے میں کہیں کم تھی جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، خاص طور پر جنہوں نے اعلیٰ سائنسی تعلیم کو شعبے کے طور پر اختیار کیا۔

اگرچہ کچھ سائنس دان کائنات کی تخلیق اور اس کے لیے کسی خالق کی موجودگی اور اسی نوعیت کے دیگر موضوعات کو سائنس کا درجہ دینے اور ان پر سائنسدانوں کے بحث کرنے پر کڑی تنقید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ metaphysical topicsپر بحث کرنا سائنس کے دائرہ کار سے تجاوز کرنا ہے ۔ مگر بہت سے لوگ کائنات کی تخلیق کے متعلق سائنسی دلائل کے استعمال کو درست تصور کرتے ہیں۔

atheistکا کہنا یہ بھی ہے کہ اگر خالق کا کوئی وجود ہے تو اسے نظر آنا چاہیے یا سائنسی تجربات کے ذریعے اس کا ثبوت ملنا چاہیے۔ پس وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ مادہ مخلوق ہے تو اسے پیدا کر کے دکھاؤ۔ اگر مادہ فنا ہو سکتا ہے اور یہ ہمیشہ نہیں رہے گا توکوئی ایک مثال دکھاؤ کہ کبھی ایک پتھر خود سے فنا ہو گیا ہو۔ ہر چیز کو اپنی آنکھ سے دیکھ کرہی یقین کرنے سے کچھ ملتا جلتا مطالبہ ہمیں قریشِ مکہ کے منہ سے بھی سننے کوملتا ہے۔ قرآن نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

(
مَّا کَانَ حُجَّتَہُمْ إِلَّا أَن قَالُوا اءْتُوا بِآبَاءِنَا إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ o قُلِ اللّٰہُ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یَجْمَعُکُمْ اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ
) ’’ان کی یہی حجت ہوتی ہے کہ اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادا کو (زندہ کر) لاؤ ۔ کہہ دو کہ اللہ ہی تم کو جان بخشتا ہے پھر (وہی) تم کو موت دیتا ہے پھر تم کو قیامت کے دن جس (کے آنے) میں کچھ شک نہیں تم کو جمع کرے گا لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے۔””

سائنس کی اس ہوشربا ترقی سے بہت سے مسلمان مبلغین اور مفکرین بھی متاثر ہوئے ، جس کی وجہ سے انہوں نے خالق کے ثبوت کے لیے سائنس کا ہی سہارا لینا شروع کیا۔ بالکل اسی طرح جیسے ماضی میں ارسطو کے مادے کے حادث اور قدیم ہونے کی دلیل اور ہر متحرک چیز کے مخلوق ہونے کی دلیل کو اختیار کیا تھا۔ جبکہ کچھ لوگوں بشمول عیسائیوں نے خالق کے ثبوت کے لیےTeleological argument, Design argument, Cosmological argument, Ontological argumentاختیار کیے۔

قرآن کا طرزِاستدلال اس سے مختلف ہے اوریہ طرزِ استدلال اگرچہ عقلی ہے مگر یہ نوعیت کے اعتبار سے ’سائنسی طریقہ کار‘ نہیں اور اسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے خواہ وہ سائنس کا علم رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ درست طریقہ خالق کے وجود کے ثبوت کے لیے قرآن کے عقلی طرزِ استدلال کو ہی اپنانا ہے ۔مثال کے طور پر کتاب نظام الاسلام میں یہ الفاظ درج ہیں جو شیخ تقی الدین النبہانی نے لکھی۔ ” جہاں تک اشیاء کے لیے ایک ایسے خالق کے وجودکی ضرورت کا تعلق ہے تو یہ اس لیے ہے کہ و ہ تمام اشیاء جن کا عقل ادراک کرتی ہے مثلاً انسان ،حیات اور کائنات سب کی سب محدود یعنی پابند،عاجز و ناقص او ر محتاج ہیں۔ پس انسان محدود ہے کیونکہ وہ ہر چیز میں ایک حد تک جاسکتاہے ،اس سے تجاوز نہیں کرسکتا،لہٰذا وہ محدود ہے ۔ زندگی بھی محدود ہے ،کیونکہ اس کا مظہر ہی انفرادی ہے اور حواس کے ذریعے اس بات کا مشاہدہ کیا جاتاہے کہ یہ ایک فرد کے اندر ہی ختم ہوجاتی ہے۔ لہٰذا یہ بھی محدود ہے۔ کائنات بھی محدودہے کیونکہ یہ ایسے اجسام کا مجموعہ ہے ،جن میں ہر جسم محدود ہے اور محدود اشیاء کامجموعہ بھی لازمی طورپر محدود ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان، کائنات اور حیات سب کے سب قطعی طورپر محدود ہیں۔

جب ہم ایک محدود چیزپرغور کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ازلی نہیں ہے ۔ کیونکہ اگروہ چیزازلی ہوتی تومحدود نہ ہوتی۔ لہٰذامحدود چیز لازمی طورپر کسی اور کی مخلوق ہوگی اوروہ ذات ہی انسان ،حیات اور کائنات کی خالق ہے ۔ پھر یہ خالق یا توکسی اور کی مخلوق ہوگا یا خود اپنا ہی خالق ہوگا یاپھر وہ ازلی ہوگا ،جس کے وجود کا ہونا ایک لازمی امر ہو۔ اس کا کسی او رکی مخلوق ہونا تو باطل ہے ،کیونکہ اس صورت میں وہ محدود ٹھہرے گا ۔ نیز اپنے آپ کا خالق ہونا بھی باطل ہے کیونکہ اس صورت میں وہ ایک ہی وقت میں اپنا خالق اور اپنے آپ کی مخلوق ہوگا،اور یہ بھی باطل ہے ۔ لہٰذا یہ خالق ازلی اورواجب الوجود ہی ہوسکتاہے اور یہ خالق اللہ تعالیٰ ہے ۔

اس پیراگراف کے مطابق ہم مندرجہِ ذیل دو نکتوں کی بنیاد پر یہ قطعی طور پر جان سکتے ہیں کہ ایک کائنات کے خالق کا وجود ہے۔ ہم قطعی طور پر جانتے ہیں کہ وہ چیزیں جن کا حواس مشاہدہ کرتے ہیں اورعقل ان کا ادراک کرتی ہے ،وجود رکھتی ہیں۔ اور ہم یہ قطعی طور پر جانتے ہیں کہ یہ چیزیں اپنی صلاحیتوں میں محدود ہیں ۔ اشیاء کا صلاحیتوں میں محدود ہونا کائنات کی ہر چیز سے ظاہر ہے۔ مثلا مادّہ یہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ وہ اپنے آپ کسی اور چیز میں تبدیل ہو جائے، سوائے اِس کے کہ اُسے مخصوص حالات سے بھی گزارا جائے جس عمل میں کہ کچھ دوسری چیزوں کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر پانی کو بھاپ میں بدلنا ہو تو اُس کیلئے خاص حرارت کی ضرورت پڑے گی اور اگر انڈے سے چوزا پیدا کرنا ہو تو اس کیلئے بھی انڈے کو ایک خاص درجۂ حرارت میں ایک معین مدت تک رکھنا پڑے گا۔ یہی معاملہ انسان کا بھی ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں میں محدود ہے،انسان مجرد اپنے جسم کے ساتھ ہوا میں نہیں اُڑ سکتااور نہ ہی وہ پانی پئے بغیر اپنے آپ کو زند ہ حالت میں برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اور یہ بھی ایک قطعی حقیقت ہے کہ محدود اشیاء کی خواہ کتنی ہی تعداد جمع کر لی جائے وہ محدود ہی رہتی ہیں۔ مثلا ہم خواہ کتنے ہی انسانوں کو جمع کر لیں وہ سب مل کر بھی اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا نہیں کر سکتے کہ وہ کسی اور چیز کی مدد کے بغیرہوا میں اڑ سکیں یا پانی پئے بغیر زندہ رہ سکیں یا اگر پانی ہی کی مثال لی جائے تو پانی کی خواہ کتنی ہی مقدار جمع کر لی جائے وہ اپنے آپ کو حرارت کی موجودگی کے بغیرخود سے بھاپ میں تبدیل کرنے کی صلاحیت سے عاجز ہی رہے گا۔ سو محدود اشیاء کا مجموعہ بھی محدود ہی ہے۔

پس صلاحیتوں میں محدود ہونے کی وجہ سے کائنات کی ہر شے محتاج dependentہے۔ کوئی بھی چیز جو dependent ہے وہ اپنے علاوہ کسی اورچیز کی محتاج ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے بل بوتے پر وجود میں نہیں آسکتی اور نہ ہی برقراررہ سکتی ہے۔ اگر کوئی چیز خود سے وجود رکھنے کی صلاحیت نہ رکھتی ہو تو وہ ازلی نہیں ہوسکتی، کیونکہ اس کے وجود میں رہنے کے لئے کسی اور چیز کا بھی وجود میں ہونا ضروری ہے۔ پس ہر محدود چیزکسی خالق کی مخلوق ہے جس نے انہیں تخلیق کیا ہے او ر کوئی بھی محدود چیز ازلی نہیں ہے۔ اور خالق مخلوق نہیں ہو سکتا،اُسے ازلی ہونا چاہئے۔ اگر خالق کو کسی نے پیدا کیا ہے تو پھروہ خود مخلوق ہوا اور محدود اور محتاج ٹھہرا۔ کیونکہ دو ہی شکلیں ممکن ہیں،خالق یا مخلوق،اور یہ دونوں اپنے لحاظ سے الگ الگ وجود ہیں۔ کیونکہ خالق کی خصوصیات میں سے ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ تخلیق نہیں کیا گیا،اس لئے خالق وہ ہے جسے کسی نے تخلیق نہ کیا ہو۔ یہ کہنا بالکل غلط ہوگا کہ خالق کسی چیز کا تو خالق ہے اور کسی چیز کی مخلوق،کیونکہ یہاں زیرِ بحث مسئلہ کسی مخصوص چیز جیسے آدمی اور مشین کی تخلیق نہیں ہے بلکہ یہ تمام تر مخلوقات کے خالق کے بارے میں ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسان، کائنات اور حیات سب کی سب مخلوق ہیں اور ان کاایک خالق ہے جو ازلی ہے اور کسی چیز پر محتاج نہیں ہے۔

جہاں تک اس دلیل کا تعلق ہے اشیاء کسی اور مادی چیزہی کی محتاج ہیں مثلاً پانی کی ایک مخصوص مقدار کو ابلنے کے لئے حرارت کی ضرورت ہے اور حرارت بھی مادہ ہے، پس مادے کی یہ محتاجی مادے پر ہی ہے۔ ایسا کہنا درست نہیں کیونکہ یہ محتاجی کچھ خاص قوانین کے تحت ہے۔ مثلاً پانی کی مخصوص مقدار کو بھاپ میں بدلنے کے لیے مخصوص مقدار میں حرارت کی ضرورت ہے ۔ اور یہ تناسب فکس ہے۔ نہ ہی پانی اور نہ ہی حرارت اس تناسب کو بدلنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ اگر ان تناسبات کو مقرر کرنا پانی یا حرارت کا اپناکام ہوتا تو ان کے پاس ان تناسبات کو بدلنے کی قدرت ہوتی اور ان کے پاس ایسی کوئی قدرت نہیں ہے۔ ہم اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں پوری کائنات خاص قوانین کی پابند ہے جسے وہ تبدیل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ کائنات کے سیارے ایک مخصوص نظام کے تحت چل رہے ہیں جسے وہخود سے تبدیل نہیں کر سکتے۔ ایک سیارہ جس مدار(Orbit)پر بڑھتا ہے وہ متعین ہے سیارہ اس سے باہر نہیں جا سکتے۔ مدارایک راستے کی طرح ہے اور سیاروں کی حیثیت اُس راستے پر چلنے والے کی طرح ہے۔ یہ نظام ان سیاروں کو محض چلاتا ہی نہیں،بلکہ انہیں مدار کی حدود میں بھی رکھتا ہے اور اس سے باہر نہیں جانے دیتا۔ یہ نظام ان سیاروں کا بنایا ہوا نہیں اگر یہ سیاروں کی طرف سے خود اختیار کردہ ہوتا تو وہ اس نظام کو تبدیل کرنے کا اختیار بھی رکھتے۔ اس کی ایک اور مثال ہماری اپنی ذات ہے ۔

آپ یہ فیصلہ خود کرسکتے ہیں کہ آپ کو کیا کہنا چاہیے اور کیا نہیں کہنا چاہیے، کیونکہ بولنا آپ کے اختیار میں ہے۔ مگر آپ یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ پیدائش پر آپ کے بالوں کا قدرتی رنگ کیا ہونا چاہیے۔ آپ کے بالوں کا رنگ آپ کے اختیار سے باہر اور آپ پرعائد کیا گیا ہے۔ اگر آپ کہیں کہ آپ کے بالوں کا رنگ خاص مواد کی وجہ سے ہے، تب بھی اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ یا آپ کے بال یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ آپ کے بالوں کا قدرتی رنگ کیا ہونا چاہیے۔ اسی طرح آنکھ میں بینائی کی صفت موجود ہے مگرآنکھوں کی بینائی ایک مخصو ص دائرے میں ہی کام کر سکتی ہے مثلاً آنکھ کی بینائی ایک کلومیٹر دور کی شے کو نہیں دیکھ سکتی یا دیوار کے پار نہیں دیکھ سکتی۔ اور اس مخصوص دائرے کو آنکھ نے خود مقرر نہیں کیا۔ بلکہ یہ دائرہ آنکھ پر impose کیا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے اوپر اپنے اختیارات میں محدود ہیں۔ لہٰذا اگر انسان، حیات اور کائنات کو ایک ہی چیز سمجھا جائے تب بھی یہ اپنے سے علیحدہ ایک چیز پر منحصر ہیں کیونکہ کائنات کی تمام اشیاء ایک خاص نظام اور تناسبات کے تحت چل رہی ہیں، جو اس کائنات کے اندر سے نہیں نکلا اور کائنات کی تمام اشیاء مل کر بھی اس نظام کو تبدیل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں ۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے: (وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا ذَلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ o وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاہُ مَنَازِلَ حَتَّی عَادَ کَالْعُرْجُونِ الْقَدِیْمِ o لَا الشَّمْسُ یَنبَغِیْ لَہَا أَن تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُونَ) ’’ اور سورج اپنے مقرر رستے پر چلتا رہتا ہے یہ (اللہ) غالب اور دانا کا(مقررکیا ہوا) اندازہ ہے۔ اور چاند کی بھی ہم نے منزلیں مقرر کر دیں یہاں تک کہ (گھٹتے گھٹتے) کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہو جاتا ہے۔ نہ تو سورج ہی سے ہو سکتا ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آ سکتی ہے ،سب اپنے اپنے دائرے میں تیر رہے ہیں‘‘(یس) جب ہم کہتے ہیں کہ انسان، حیات اور کائنات محدود ہیں تو اس سے مراد ان کا رقبے یا وقت یا تعداد کے لحاظ سے متناہی یا محدودہونا نہیں ہے۔ اور نہ ہی محدود کے مطلب کا کائنات کے حجم کے متعلق سائنسی نظریوں سے کوئی تعلق ہے۔ محدود کی اصطلاح سے ہمارا مطلب اختیارات اور صلاحیت کا محدود ہونا ہے، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ جبکہ خالق اختیارات اور صلاحیتوں میں محدود نہیں اور اسے ہر چیز پر مکمل اختیار اور طاقت حاصل ہے، اور لہٰذا وہ ہر چیز سے بے نیاز وجود رکھنے کے قابل ہے،اور ازلی ہونے کے قابل ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا: (قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُم مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَلَا فِیْ الْأَرْضِ وَمَا لَہُمْ فِیْہِمَا مِنْ شِرْکٍ وَمَا لَہُ مِنْہُمْ مِّنْ ظَہِیْرٍ ) کہہ دو کہ جن کو تم کے سوا (معبود) خیال کرتے ہو ان کو بلاؤ وہ آسمانوں اور زمین میں ذرہ بھی چیز کے بھی مالک نہیں ہیں اور نہ ان میں ان کی شرکت ہے اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے(سبا:22 ) اور فرمایا: (قل ھو اللہ احد o اللہ الصمد) ’’کہو کہ وہ اللہ ایک ہے o اللہ( ہر شے سے) بے نیاز ہے‘‘ اورجہاں تک لا متناہیت infinityکے تصور کی بات ہے تویہ ایک ریاضیاتی تصور ہے اور اس کا استعمال صرف قیاسی خاکوں اور ان کے اطلاق application میں ہوتا ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے ہم حقیقت میں محسوس کرتے ہوں۔ اور اس کا خالق کے وجود کے ثبوت سے کوئی تعلق نہیں۔ ازلیت اللہ کی صفت ہے۔ البتہ انسان کا محدودذہن اللہ کی صفات کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ خالق کے وجود کے ثبوت کے لئے ہمارا ازلیت کو سمجھنا درکار نہیں ہے۔ اس کے لئے صرف یہ درکار ہے کہ ہم انسان، حیات اور کائنات کو سمجھیں، جن میں سے کوئی بھی ازلی نہیں ہے اور یہ تمام چیزیں ہمارے ادراک کے دائرے میں ہیں۔ اورہمارا یہ سمجھنا بھی درکار ہے کہ خالق بذاتِ خود مخلوق نہیں ہوسکتا، ورنہ وہ محدود ٹھہرے گا اور لہٰذا وہ بھی کسی اور چیز پر منحصر ہو گا۔ لہٰذا اس کا ازلی ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ ہم یہ ثابت نہیں کرتے کہ خالق اپنے حجم اور رقبے میں لامتناہی ہے۔ ہم خالق کی صفات سے آگاہ نہیں جب تک وہ ہمیں خود نہ بتائے۔ خالق کے ثبوت کے متعلق ہمیں صرف یہ سمجھنا ہے کہ وہ خود سے وجود رکھتا ہے۔ جب یہ ثابت ہوجائے، تو پھر جو بھی خالق نے وحی کے ذریعے ہمیں اپنے بارے میں بتایا ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں، مثلاً اس کا رحیم ہونا اور اس کے عذاب کا سخت ہونا، اس کا سمیع و بصیر ہونا، اس کا علیم و خبیر ہونا۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ مادہ کیوں وجود رکھتا ہے یا اس کا مقصد کیا ہے ،تو ہم خود سے اس کا جواب طے نہیں کر سکتے،اس کائنات کا خالق ہی بتاسکتا ہے کہ اس کائنات کو بنانے میں اس کا مقصد کیا ہے ۔

ہمیں تو یہ جاننا ہے کہ اس دنیا میں ہمیں کیا کرنا ہے۔ اوریہ فیصلہ کرنے کیلئے کہ ہمیں دنیا میں کرنا کیا ہے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس دنیاسے پہلے اور بعد میں کیا ہے۔ کیا ہم اس دنیا میں محض مزے کرنے آئے ہیںیا کچھ اور مقصود ہے؟ ہمیں اس وقت تک یہ معلوم نہ ہو سکتا جب تک کہ ہم یہ نہ جان لیں کہ اس کائنات کا کوئی خالق بھی ہے اور اگر ہے تو وہ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ اورجہاں تک atheistکے اس سوال کا تعلق ہے کہ اگر یہ مادہ مخلوق ہے تو اسے پیدا کر کے دکھاؤیااگر مادہ فنا ہو سکتا ہے اور یہ ہمیشہ نہیں رہے گا توکوئی ایک مثال دکھاؤ کہ کبھی ایک پتھر بھی خود سے فنا ہو گیا ہو۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انسان یا کائنات کی کسی بھی چیز میں اس صلاحیت کا موجود نہ ہونا کہ وہ مادے کی تخلیق کر سکے یا اسے فنا کر سکے، بذاتِ خود انسان اور کائنات کے مخلوق ہونے کا ثبوت ہے۔ کیونکہ یہ بھی صلاحیت کا محدود ہونا ہے جیسا کہ اوپر محدودیت کوبیان کیا گیا۔ اس کائنات کے خالق نے کائنات کو اس انداز سے تخلیق کیا ہے کہ اس نے کائنات کے اندر یہ صلاحیت ہی نہیں رکھی کہ وہ مادے کو تخلیق کر سکے یا خالق کے تخلیق کردہ مادے کو فنا کر سکے۔ اور اللہ نے بھی قرآن میں اس بات کو بیان کیا ہے،

ارشاد فرمایا: (قُلْ أَرَأَیْْتُمْ شُرَکَاءَ کُمُ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللَّہِ أَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْأَرْضِ ) ’’بھلا تم نے اپنے شریکوں کو دیکھا کہ جنہیں اللہ کے سوا پکارتے ہو ،مجھے دکھاؤ کہ زمین میں سے کونسی چیز ایسی ہے جو ان کی تخلیق کردہ ہے ‘‘(فاطر:40) پس کائنات میں موجود کوئی بھی چیز خالق نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ خالق کے اندر تو یہ صفت لازمی ہونی چاہیے کہ وہ اشیاء کو تخلیق کر سکے تبھی تو وہ خالق ہے اور چونکہ یہ صلاحیت اس کائنات میں موجود نہیں لہٰذا کائنات بشمول انسان خالق نہیں ہو سکتی۔ اورجس نے تمام اشیاء کو پیدا کیا ہے وہ ان پر مکمل قدرت رکھتا ہے، لہٰذا انہیں فنا بھی کرسکتا ہے،انسان یا کائنات خود سے اپنے وجودکو فنا نہیں کر سکتے، وہ خالق کے طے کردہ قوانین کے تحت محض مادے کو ایک شکل سے دوسری شکل میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ (أَوَلَیْْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَی أَنْ یَخْلُقَ مِثْلَہُمْ بَلَی وَہُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِیْمُ (81) إِنَّمَا أَمْرُہُ إِذَا أَرَادَ شَیْْئاً أَنْ یَقُوْلَ لَہُ کُنْ فَیَکُوْن) ’’بھلا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا کیاوہ اس بات پر قادر نہیں کہ (ان کو پھر) ویسے ہی پیدا کر دے؟ کیوں نہیں اور وہ تو بڑا تخلیق کرنے والا اور علم والا ہے۔ اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تواس سے فرما دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے‘‘(یس:81-82)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے