’’میری چھاتی کے بال جگہ جگہ سے نوچے جا چکے تھے جہاں سے ہلکا ہلکا خون رس رہا تھا اور میرے سینے کا منظر ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے کسی جنگل میں آگ لگ جائے اور جلی ہوئی زمین پر کہیں کہیں کوئی گھاس بچ جاتی ہے ۔درد کا یہ عالم تھا کہ جیسے آگ میں پکی ہوئی سرخ سوئیاں جسم میں چبھوئی جا رہی ہیں۔مجھے گندی گالیاں دی جا رہی تھیں اور کہا جا رہا تھا کہ ولید کا پتہ بتا دو ورنہ ہم تمہاری ماں اور بہن کو بھی اٹھا کر یہاں لے آئیں گے ۔‘‘
مذکورہ بالا الفاظ آغا نوید کی کتاب ’’دوسرا جنم‘‘ سے ہیں۔ آغا نوید کسی دشمن ملک کا ایجنٹ نہیں بلکہ ایک سیاسی کارکن تھا ۔
جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی تھی لیکن تعلیمی اداروں میں طلبہ کی سیاسی سرگرمیاں جاری تھیں۔ آغا نوید گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کی اسٹوڈنٹس یونین کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے ۔ زمانہ طالب علمی ہی میں وہ ایک کتاب کے مصنف بھی بن گئے ۔ان کے بھائی مارشل لا حکومت کے خلاف سرگرم تھے ۔بھائیوں کو گرفتار کرنے کیلئے پولیس نے ان سے پوچھ گچھ کی اور پھر وہ پولیس سے ہوتے ہوئے دیگر اداروں کے مہمان بن گئے ۔ گرفتاری کے وقت وہ ایم اے فلاسفی کے طالب علم تھے ۔فلسفے کے اس طالب علم پر لاہور کے شاہی قلعے میں جو بہیمانہ تشدد ہوا اسکی روداد پڑھنے کے بعد شاید آپ کو کئی راتوں تک نیند نہ آئے ۔
شاہی قلعے میں آغا نوید کے کپڑے اتار کر مارا جاتا تھا اور پھر اس کے جسم کے نازک حصوں میں مرچوں والے ڈنڈے گھمائے جاتے تھے اور یہ قبیح فعل کرنے والے فاتحانہ انداز میں قہقہے لگایا کرتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب شاہی قلعے میں عورتوں پر بھی وحشیانہ تشدد کیا گیا۔ایک نوجوان طلعت جعفری کو گرفتار کرنے کیلئے اس کی والدہ کو اسپتال سے اٹھا کر شاہی قلعے میں لایا گیا اس خاتون کا آپریشن ہوا تھا اور ان کے پیٹ پر ٹانکے لگے ہوئے تھے ۔
آغا نوید نے لکھا ہے کہ میجر احمد دین نے اس خاتون کے پیٹ پر اتنے بید مارے کہ ان کے ٹانکے کھل گئے اور وہ لہولہان ہو گئیں۔آغا نوید نے اس کتاب میں وہ سب لکھ دیا جو اس کے ساتھ ہوا یا جو اس نے دیکھا ۔ کتاب میں تشدد کے مختلف طریقوں کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے جس میں غلیظ ترین طریقہ یہ ہے کہ ملزم کو ایک دیوار کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے اور اسکی گردن میں انسانی فضلے سے بھری بالٹی ڈال دی جاتی ہے جس سے اٹھنے والی بدبو آدمی کے دماغ کی شریانیں پھاڑ دیتی ہے۔ اس کتاب میں تشدد کے کچھ ایسے طریقے بھی لکھے گئے جن کا ذکر کرنا انسانیت کی تذلیل کے مترادف ہے ۔
فرخندہ بخاری کی کتاب ’’یہ بازی عشق کی بازی ہے ‘‘ میں بھی شاہی قلعے لاہور میں تشدد کی داستان موجود ہے ۔معروف شاعر شہرت بخاری کی اہلیہ فرخندہ بخاری کی کلائی پر جلتے ہوئے سگریٹ رکھ کر من پسند بیان حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی ۔پاکستان میں سیاسی کارکنوں کے ساتھ وحشیانہ تشدد کا سلسلہ جنرل ایوب خان کے دور میں شروع ہوا تھا جب نیشنل عوامی پارٹی کے کراچی میں آفس سیکرٹری حسن ناصر کو گرفتار کرکے شاہی قلعے لاہور میں لایا گیا۔یہاں تشدد سے حسن ناصر کی موت واقع ہو گئی اور انکی لاش غائب کر دی گئی ۔ ان کی والدہ کو جو لاش دی گئی اس لاش کو والدہ نے وصول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ میرا بیٹا نہیں ہے ۔
سیاسی کارکنوں پر تشدد سے بنگالیوں میں پاکستان کے خلاف نفرت پیدا ہوئی اور اس سلسلے کو ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری دور میں بھی جاری رکھا گیا۔ بعدازاں بھٹو صاحب کے ساتھ بھی جیل میں تشدد ہوا۔ ایک دفعہ بیگم نصرت بھٹو نے مجھے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ بھٹو صاحب کو پھانسی سے قبل ہی قتل کر دیا گیا تھا کیونکہ انکی گردن پر پھانسی کا کوئی نشان نہ تھا اور گردن بھی نہیں ٹوٹی تھی ۔نوے کی دہائی میں ایم کیو ایم پر الزام لگایا گیا کہ اس جماعت نے مخالفین پر تشدد کیلئے ٹارچر سیل قائم کر رکھے تھے جبکہ ایم کیو ایم کا دعویٰ تھا کہ ریاستی اداروں نے اس کے کارکنوں کے ساتھ ظلم کیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلوچستان کے سیاسی کارکنوں کو غائب کرنے اور ان پر تشدد کے سلسلے نے پاکستان کو فائدہ نہیں نقصان پہنچایا تھا ۔اسی دور میں پرویز رشید اور رانا ثناء اللہ جیسے سیاسی کارکنوں کے ساتھ جو تشدد ہوا وہ ناقابل بیان ہے ۔
افسوس کہ آج پاکستان میں کسی فوجی ڈکٹیٹر کی نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے ۔اس جماعت کو ایک ڈکٹیٹر کی پیداوار قرار دیا جاتا ہے لیکن ایک اور ڈکٹیٹر کی مخالفت کے باعث اس جماعت کے سربراہ نواز شریف کو غدار بھی کہا گیا۔نواز شریف نے کراچی کی لانڈھی جیل بھی دیکھی ہے اور اٹک کا قلعہ بھی دیکھا ہے لیکن ان کے دور میں سیاسی کارکنوں پر تشدد کا سلسلہ بدستور جاری ہے ۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے ایک کارکن آفتاب احمد کی رینجرز کی حراست میں موت نے بہت سے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں ۔آفتاب احمد کے جسم پر بہیمانہ تشدد کے نشانات ناقابل تردید ہیں۔
جن ڈاکٹروں نے انکی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا انہیں خاموش رہنے کیلئے کہا گیا۔لاش کو تابوت میں بند کرکے اہل خانہ کے حوالے کیا گیا ۔اہل خانہ نے لاش کو تابوت سے نکالا تو آفتاب احمد کا سر جگہ جگہ سے ٹوٹا ہوا تھا ، کہنیوں میں کیل ٹھونکنے کے نشانات تھے ، ناخن اکھڑے ہوئے تھے اور نازک اعضاء پر تشدد کے نشانات تھے۔ یکم مئی کو آفتاب احمد کو گرفتار کیا گیا تو ان پر کوئی مقدمہ نہیں تھا۔ وہ ڈاکٹر فاروق ستار کے ساتھ ڈائری لیکر گھوما کرتے تھے ۔
صرف ڈیڑھ دن میں آفتاب احمد کے ساتھ اتنا تشدد ہوا کہ بیچارا زندگی کی بازی ہار گیا۔اس جسمانی تشدد سے انکار ممکن نہ رہا تو کچھ صحافیوں کو کہا گیا کہ آفتاب احمد پر تشدد کی انکوائری ضرور ہو گی۔یہ انکوائری اس لئے ضروری ہے کہ تشدد کرنے والوں نے صرف آفتاب احمد پر نہیں بلکہ سندھ رینجرز کے ساتھ اور پاکستان کے آئین و قانون پر بھی تشدد کیا ہے ۔
سوشل میڈیا پر کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ایم کیو ایم ملک دشمن جماعت ہے، یہ بلدیہ ٹائون فیکٹری میں زندہ انسانوں کو جلانے والی جماعت ہے یہ جماعت ہمدردی کی مستحق نہیں ۔میرا سوال یہ ہے کہ ملک دشمنوں اور دہشت گردوں کے کردار اور قوم کے باوردی محافظوں کے کردار میں کوئی فرق ہونا چاہئے یا نہیں؟ آفتاب احمد نے کوئی جرم کیا تھا تو اس جرم کو عدالت میں ثابت کیا جاتا لیکن تشدد کے ذریعہ ایک من پسند ویڈیو بیان حاصل کرنے کی کوشش میں اسکی جان چلی گئی اور رینجرز کے اچھے کاموں کو پس منظر میں دھکیل دیا گیا۔اگر ایمانداری سے انکوائری کی جائے تو پتہ چلے گا کہ گرفتاری سے چند دن قبل آفتاب احمد کو کس کس نے فون کئے اور ایم کیو ایم چھوڑنے کیلئے کیا آفر دی ؟یہ کیسی ملک دشمن جماعت ہے کہ اسے چھوڑ دینے والے فوری طور پر محب وطن قرار پاتے ہیں اور انکی ملک دشمنی کو فراموش کر دیا جاتا ہے ؟
افسوس تو یہ ہے کہ آج پاکستان میں ڈکٹیٹر شپ نہیں جمہوریت ہے لیکن سیاسی کارکنوں کے ساتھ عقوبت خانوں میں وہی کچھ ہو رہا ہے جو ڈکٹیٹروں کے دور میں حسن ناصر اور آغا نوید کے ساتھ ہوا۔ پاکستان کی بے بس سیاسی حکومت تشدد کے اس تماشے کو خاموشی سے دیکھ رہی ہے اور خود بھی تماشہ بن رہی ہے ۔انصاف کے ادارے خاموش تماشائی بن کر اپنے آپ کو مذاق بنا رہے ہیں ۔کچھ سال کے بعد ایک اور آغا نوید ایک اور کتاب لکھے گا اور بتائے گا کہ کراچی میں اس کے ساتھ کیسے تشدد ہوتا تھا ۔آغا نوید تشدد سے اپاہج ہو گیا اور سسک سسک کر مر گیا لیکن یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہئے ۔پاکستان کے آئین و قانون کو آغا نوید بننے سے بچا لیجئے۔اس آئین پر تشدد کرنے والے ریاستی عناصر اور غیر ریاستی عناصر کے خلاف آواز بلند کیجئے کیونکہ یہ ہر سچے پاکستانی کا فرض ہے
بشکریہ روزنامہ جنگ