ماں،اب تم ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتی

ماؤوں کا عالمی دن آٹھ مئی کو منایا جائے گا۔۔ مغربی ممالک کی طرح اب پاکستان میں بھی ماؤں کا عالمی دن منانے کا رواج زور پکڑتا جا رہا ہے۔۔ مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ صرف مددز ڈے کا ہی نہیں بلکہ ماؤوں کو اولڈ ہوم بھیجنے کا رحجان بھی بڑھنے لگا ہے۔۔

مددز ڈے پر پیکج بنانے کے لیے میں نے گوگل پر راولپنڈی، اسلام آباد کے اولڈ ہومز سرچ کیے میں توقع کر رہی تھی کہ ایدھی ہوم کے علاوہ ایک آدھ اولڈ ہوم اور ہو گا مگر کم از کم چھ سے سات اولڈ ہومز کے نام سامنے آ گئے۔۔ میں نے باری باری تقریبا سبھی سے رابطہ کیا۔ آخر میں،، میں نے باغبان نامی نجی اولڈ ہوم جانے کا فیصلہ کیا۔

وہاں پہنچ کر میں نے ایک انتہائی مدبر اور خوش شکل خاتون کو دیکھا ان سے سلام دعا ہوئی ان کے اٹھنے بیٹھنے کا انداز، ملنے کے آداب دیکھ کر لگ رہا تھا کہ ان کا تعلق کسی بہت اچھے خاندان سے ہے۔ میں نے ان سے پوچھا آنٹی آپ کا یہاں کیسےآنا ہوا۔ وہ کہنے لگیں بیٹا یہ ایک لمبی داستان ہے۔ میرے شوہر گریڈ بیس کے افسر تھے۔ وہ خاتون خود سوشیالوجی ایم ایس سی کی ڈگری رکھتی ہیں۔ ان کے شوہر کی پہلی بیوی چار چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر دارفانی سے کوچ کر گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی اپنی اولاد نہ ہو سکی مگر اپنے شوہر کی پہلی بیوی سے ہونے والی اولاد کو محبت سے پالنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بچے بھی محبت کرتے تھے زندگی مزے سے گزر رہی تھی۔ وہ بتانے لگیں کہ ان کو سرکاری کوٹھی ملی ہوئی تھی۔ اپنے شوہر کے کولیگز کی بیگمات کے ساتھ ہفتے بعد ون ڈش پارٹی ہوا کرتی تھی۔ وہ کہنے لگیں کہ وہ سوشل سی خاتون تھی۔۔ ان کی حس مزاح اور برجستہ گوئی سے ان کے حلقہ احباب والے بہت محظوظ ہوتے تھے۔ زندگی میں سب اچھا تھا کہ اچانک ان کے شوہر کو برین ہیمرج ہو گیا اور وہ جانبر نہ ہو سکے۔

اسلام آباد کے پوش علاقے میں دو کنال کا بنگلہ اور زمینیں بھی تھی جو ان کے شوہر ترکے میں چھوڑ گئے تھے۔۔ کہنے لگی کہ بچوں نے کہا کہ امی یہ سب بیچتے ہیں اور جو آپ کے حصے میں آئے گا وہ آپ کو دے دیں گے۔ اگرچہ شوہر کی نشانی وہ گھر وہ بیچنا تو نہیں چاہتی تھی مگر اولاد کے کہنے پر بیچ ڈالا۔ جب پیسوں کا معاملہ آیا تو بیٹوں نے کہا کہ ہم آپ کو نہیں رکھ سکتے۔ اس طرح نہ تو پیسے دیئے اور رہنے کا سائبان بھی چھین لیا۔

شوہر کی اچھی پینشن آتی ہے یہ خاتون اپنی بہن کے گھر رہنے لگیں مگر ان کی بہو نے ان کو رکھنا گوارا نہیں کیا۔ اور اس کا برا رویہ دیکھ کر اور اپنے لیے سب بہن بھائی کا در بند دیکھ کر اپنی ہمسائی کی بدولت وہ یہاں آ گئیں۔۔

میں نے کہا آنٹی شاید اپنی اولاد ہوتی تو آپ کو یوں نہ چھوڑتی۔۔ کہنے لگیں بیٹا ماں تو ماں ہوتی ہے وہ سگی یا سوتیلی نہیں ہوتی۔ میں نے ان بچوں کو اپنے ہاتھ سے کھلایا پلایا میرے ہاتھوں میں پلے وہ بچے میری اپنی اولاد ہیں۔ اللہ نے ممتا کی پیاس ان بچوں سے بجھائی ہے۔ وہ بھی مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔ اور کہتے تھے پیدا کرنے والی ماں تو چلی گئی مگر پالنے والی ماں آپ ہی ہیں۔ مگر شاید دولت اور پیسہ انسان کو سب کچھ بھلا دیتا ہے۔ دولت کی ہوس سبھی رشتوں کو کھا جاتی ہے۔

میں نے کہا آپ آپ ان بچوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گی۔۔ کہنے لگیں اللہ میرے بچوں کو کوئی دکھ نہ دے۔ ان کو خوشیاں ملیں آباد رہیں۔۔ اللہ کرے کہ بس ان کا ضمیر جاگ جائے اس لیے نہیں کہ وہ میرے پاس آ جائیں بلکہ زندگی کے باقی معاملات بھی ہوتے ہیں اور خودغرضی انسان کو برباد کر دیتی ہیں میں انہیں آباد دیکھنا چاہتی ہوں۔۔

اس ساری گفتگو میں ناجانے کتنی بار انہوں نے اپنے آنسو پونچھے۔۔ اپنے ماضی کو یاد کر کے ان کی آنکھوں کی چمک ناجانے کتنی بار بڑھی اور پھر مدھم ہو گئی۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بات شروع کرتی تھی اور جب بات ختم ہوتی تھی تو ان کا لہجہ روہانسا ہو جاتا تھا۔۔ وہ کہتی ہیں مجھے پتہ ہے کہ میرے بچوں کو میری پروا نہیں مگر آٹھ مئی کو میں بھی انتظار کرتی ہوں کیا پتہ میرے ہاتھوں پلنے والا بیٹا چلا آئے یا کم از کم صرف ایک فون کال کر ڈالے ایک پھول چپکے سے کہیں سے آ گرے جس کے ساتھ ننھے سے کارڈ پر امی آئی لو یو لکھا ہو۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوتا۔۔ وہ کہتی ہیں انگریزوں کے اس تہوار سے ان کی ماؤوں کو ایک دن کی خوشی تو مل ہی جاتی ہے نا مگر میرا دل سالوں سے ویران ہے۔۔ ہر سال کی طرح اب کی بار بھی مددز ڈے آئے گا گزر جائے گا میرا انتظار انتظار ہی رہے گا۔۔ مگر میرا رب یہ سب دیکھ رہا ہے وہ شاید اس دنیا میں آزمائش دے کر میری آخرت سنوار دے۔۔

ہم بھلے یہ کہیں کہ مددز ڈے مغربی تہوار ہے وہاں تو ماں باپ کو پوچھا نہیں جاتا سال بعد ایک دن ان کے ساتھ گزار کر وہ سمجھتے ہیں کہ فرض پورا ہو گیا۔ مگر اس سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ہم بھی شاید اپنی ماؤں کو روز اتنا وقت نہیں دے پاتے اگر سال کے بعد ایک دن ہی صحیح ماں کو چھوٹے سے تحفے کے ساتھ یہ بتایا جائے کہ وہ ہمارے لیے زندگی میں سے اہم ہیں ان کے جیسا کوئی بھی نہیں تو یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں مگر یہ سننے کے لیے ان کو اولڈ ہوم مت چھوڑ کر آئیں۔۔ ماں کی دعاؤں میں دنیا اور آخرت کی فلاح ہے۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے