نام ایک، انجام دو …. !

ایک مطیع الرحمن کل ڈھاکہ جیل میں پھانسی پا کر آسودہ خاک ہو چکے. جب بھی پاکستان نے ان وار ٹرائلز کے متعلق کچھ کہنے کی کوشش کی بنگلہ دیش نے غرّا کر جواب دیا کہ یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے اور اس قسم کی کسی بات کو بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں مداخلت سمجھا جائے گا.

نہ جانے اس بات کا اصل میں کیا مطلب تھا کہ پاکستان دم سادھے ایک طرف کو ہو گیا. حالانکہ جس "جرم” میں یہ مقدمات چلائے جا رہے تھے وہ اس وقت ہوئے جب یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ تھا.

بہرحال، مطیع الرحمن پاکستان سے محبت کی پاداش میں چپ چاپ پیوند خاک ہو گئے.

[pullquote]اب ذکر دوسرے مطیع الرحمن کا.[/pullquote]

اسکواڈرن لیڈر مطیع الرحمن … جی ہاں، وہی مطیع الرحمن جو راشد منہاس شہید کے انسٹرکٹر تھے اور دوران تربیت پاکستانی فضائیہ کا جہاز جنگی پلان سمیت بھارت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے مگر راشد منہاس کی بروقت مداخلت سے ناکام ہو گئے. تاہم، اس دوران جہاز بے قابو ہو کر زمین سے ٹکرا گیا اور دونوں پائلٹ مارے گئے.

اسکواڈرن لیڈر مطیع الرحمن پاکستان ائیر فورس کے افسر تھے، یہ واقعہ پاکستان میں پیش آیا اور پاکستان کا اندرونی معاملہ تھا.

لیکن بنگلہ دیش نے علی الاعلان مطیع الرحمن کو اپنا ہیرو کہا. انہیں اعلی اعزاز سے نوازا. یہی نہیں …. مسلسل جدوجہد اور تکرار سے پاکستان کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ پاکستان میں دفن شدہ مطیع الرحمن کی باقیات بنگلہ دیش کے حوالہ کی جائیں. پھر پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ڈھاکہ کے شہدائے آزادی قبرستان میں ان کی تدفین کی گئی. بنگلہ دیش حکومت کو یہ سب کرنے میں 35 سال لگ گئے لیکن انہوں نے 2006 میں یہ کر کے چھوڑا.

پاکستان میں پاکستان سے محبت کرنے والا مجرم اور اسی پاکستان میں بنگلہ دیش کا حمایتی، ہیرو.

بس یونہی خیال آ گیا. نام ایک سا ہونے کا مطلب یہ تو نہیں کہ قسمت بھی ایک سی ہو !!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے