میں کون ہوں؟؟؟

مجھے پہچاننے کے لئے آپ کواپنی محلاتی دنیا سے باہر آنا پڑے گا۔مفادات اور نفس پرستی کی عینک اتارنی ہوگی۔پر تکلف اور آرام دہ زندگی کے کچھ لمحات اپنی فطرت اور عادت کے بر خلاف گرد و غبار سے اٹے چہروں پر نظر ڈالنے کے لئے قربان کرنے ہونگے۔ عقل و دماغ کے بنے ہوئے جالوں سے کوسوں دورفقط ضمیرکی آواز اور و دل کی دھڑکنوں سے میری کرب و درد بھری زندگی کے شب و روز دیکھنے ہونگے۔اور اگر آپ بھی واقعی وہ درد رکھتے ہیں جسکی چنگاری آپ نے ہمارے دلوں میں غریب و مزدور کے حقوق کے نام پر لگارکھی تھی تو پھر استحصالی قوتوں کے ہاتھوں میرے چہرے پر پھیلی پریشانی اور مخدوش مستقبل کے ڈر سے میرے آنکھوں میں چھلکتی مایوسی کو محسوس کرنا ہوگی۔تیرے ایک اشارے پر آپکے ہر دشمن پر وطن، دین اور حقوق کے نام پرحملہ آور ہوکر جان ہتھیلی پر رکھ کر پھرنے والے آج خود شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ سو آج انکے بکھرے ہوئے اعتماد اور حاصلے کو جھوٹا سہی پر دلاسہ دینے شفقت و پیار کے دو بول کے ساتھ سر پہ ہاتھ رکھنا ہوگا۔

خیالات و احساسات کا ایک طوفان تھا جو دل میں موجزن تھا اور آج پورے ایک سال کی تگ و دو کے بعد بھی جب میں نوکری کی تلاش میں ایک دفتر سے مایوسی کے علم میں نکل کر سامنے ایک چائے کی دکان پر بیٹھا اپنے حوصلے اور جذبات کو سمیٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔ تو شاید بلا اختیار اندر کے احساسات وجذبات آواز کی صورت میں پاس بیٹھے ایک بزرگ کو بڑ براہٹ کا احساس دلا رہے تھے۔اسکی شفقت بھری آوازنے مجھے چونکا دیا۔ میری طرف نہایت شفیقانہ نظروں سے دیکھ کر پوچھ رہے تھے۔بیٹا!! آپ کس سے باتیں کر رہے ہو؟؟ کہ میرے قریبی احاطیمیں تو بس وہی تھا۔ شایدمیرے چہرے کی پریشانی اور میری بڑ بڑاہٹ اسکوکافی کچھ سمجھا گئی تھی۔ میں نے فورا اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ نہیں جی بس یوں ہی کچھ ذہن پر بوجھ اور ماضی کی کچھ یادیں اپنے آپ پر لعن طعن کرنے پر مجبور کرہی تھیں۔

نفیس چہرے پر نظر کی عینک، بالوں میں پھیلی چاندی اور الفاظ میں متانت و شیرینی بتا رہی تھی کہ وہ شاید کافی پڑھا لکھا اور مردم شناس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک درد مند دل بھی سینے میں لئے ہوئے تھا۔ استفسار پر جب میں نے بتایا کہ مجھے یونی ورسٹی سے فارغ ہوئے ایک سال ہوا اور روزگار کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہوں ۔اگرچہ میں یونیورسٹی میں ایک بڑی ملکی سیاسی جماعت کا نہایت سرگرم رکن تھا۔تو اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے پوچھا کہ آج جب وہ جماعت ایوانِ اقتدار میں بیٹھی ہے تو آپ نے اپنے قائدین سے رابطہ نہیں کیا؟؟؟یا وہ آج آپ کی پہنچ سے باہر ہیں؟؟ اپنے عزتِ نفس کا بھرم رکھتے ہوئے میں نے قدرے اعتماد کے ساتھ کہا۔ نہیں جی ایسی بات نہیں ہے ۔ انشاء اللہ بہت جلد وہ کسی اچھی جگہ میری قابلیت کے مطابق مجھے ایڈجسٹ کر لیں گے۔ لیکن شاید میرے چہرے کے تاثرات اور آواز کی کمزوری الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔جس پر وہ بزرگ قدرے افسردہ گویا ہوئے۔ بیٹا میں اسی شہر کی سب سے بڑی یونیورسٹی کا ایک ریٹائرڈ پروفیسر ہوں۔ سب جانتا ہوں۔بس اللہ آپ کا مددگار ہو۔ آپ جیسے کتنے جوانوں کو میں نے اپنی زندگی میں قومیت، وطن، دین اور حقوق کے نام پر اپنی زندگیوں کو برباد کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ہماری لاکھ نصیحتوں کے باوجودنوجوان نام نہاد نظریات اور دلفریب نعروں میں ملک کی و قوم کی بھلائی سمجھتے ہوئے ہر نصیحت سے بے نیاز اپنے محبوب قائد کے لئے اپنا مستقبل داؤپر لگانے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔اس وقت گرم خون کو اپنا مستقبل پُر کشش سیاسی نعروں کے ساتھ جڑا نظر آتا ہے۔مفادات میں گھری سیاست اور اقتدار کی دوڑ میں جڑے سیاسی قائدین کے وقتی اختلافات کو وہ دشمنیوں میں بدل دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کا خون تک بہا دیا جاتا ہے۔ اور پھر انکے معصوم خون کا فائدہ کسی اور کو پہنچے یا نہیں پر اسے بہت جلد چند تعزیتی بیانات اور کچھ تعریفی کلمات کے ساتھ بھلا دیا جاتا ہے۔

محترم پروفیسر افسردگی کیساتھ دل گرفتہ انداز میں میرے جیسے کئی سینکڑوں بلکہ ہزاروں طلبہ کا ماتم کر رہے تھے۔ انکے زبان سے نکلنے والے اخلاص بھرے الفاظ جیسے افسوس و ندامت کی بجلی بن کر میرے ضمیر و احساس پر گر رہے تھے۔ میں چیخ چیخ کر انکی باتوں کا اقرار کرکے اپنے دل کا بوجھ ھلکا کرنا چاہتا تھا۔لیکن پھر میں اپنے جذبات کو ضبط کر تے ہوئے انکی باتیں سننے لگا۔

برخوردار!!یہاں سینکڑوں مذہب ، قومیت ، علاقائیت اور حقوق کی بھینٹ چڑ گئے۔ لیکن ان کے محبوب قائدین جب مسندِ اقتدار پر آجاتے ہیں تو اپنے غریب کارکنوں کے غربت زدہ معاشرے کے بنیادی حقوق کے لئے ان کے پاس نہ احساس ہوتا ہے نہ وقت۔ آزادی کے ساٹھ سال گزرنے کے باوجود معاشرہ نہیں بدلا ، حقوق نہیں ملے، وطن ترقی نہیں کرسکا۔ مذہب اور دین مزید متنازعہ ہوگیا۔ ان سب کے لئے دل و جان سے جان لڑانے والے آپ جیسے وفادار کارکن جہاں تھے وہیں رہ گئے۔ ہاں ان سب ناموں کو بڑی خوبصورتی سے استعمال کرنے والے بمع اپنے خاندانوں کے ترقی کے معراج پر پہنچ گئے۔

میں نے اختلافی انداز میں پوچھا۔کہ ہمارے ملک میں جو سیاسی جماعتیں کام کر رہی ہیں انکا جواز تو ہے۔ قومیت کے مسائل ہیں۔غریبوں کے حقوق کی جنگ بھی کسی نے تو لڑنی ہے۔مذہب کی پاسداری بھی ملک میں ضروری ہے۔ جمہوریت کی بقاء بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

پروفیسر نے ہنستے ہوئے کہا۔ کہ یہ سارے مسائل حقیقی اور اپنی جگہ ہیں۔ لیکن افسوس!! انکی بھاگ ڈور جن ھاتھوں میں ہیں وہ لوگ ان مقاصد کے ساتھ کبھی مخلص نہ رہے ۔جبھی تو آپ جیسے نوجوان استعمال ہی ہوتے چلے آرہے ہیں۔یہاں سب لڑائیاں برائے نام ہیں صرف ایک لڑائی حقیقت میں چلی آرہی ہے۔ اور وہ ہے امیر اور غریب کی لڑائی۔امیر مختلف ناموں سے، مختلف نعروں سے غریب کو لوٹتا چلا آرہا ہے۔اور غریب ہمیشہ اپنی غربت سے نجات اور اپنے بہتر مستقبل کے چکر میں ان دلفریب نعروں میں پھنستا آیا ہے۔ آپ جیسے نوجوانوں کی اکثریت ان مقاصد کے لئے استعمال ہوجاتی ہے اور جب حقیقت سامنے آتی ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

میں پروفیسر کی باتیں سنتا جا رہا تھا۔اور جیسے زمیں میں دھنستا جا رہا تھا۔ اپنا گزرا ہوا کل ، اپنی جذباتی دنیا، پر جوش نعرے اور مخالفین پر بے جا الزامات اور مستقبل کے سہانے خواب سب ایک ایک کرکے آنکھوں کے سامنے پھر رہے تھے ۔ لیکن اب شاید واقعی بہت دیر ہوچکی تھی۔ اب میرے سامنے میرے گھر کے مسائل تھے۔ میرے شفیق اور محنت کش باپ کا چہرہ تھا جومجھے فوجی افسر دیکھنا چاہتا تھا۔ پچھتاؤں سے بھرا ایک طویل ماضی اور میری ماں کی مجھے ایک کامیاب انسان کے روپ میں دیکھنے کی خواہش اور شب و روز کی دعائیں میری آنکھوں کے سامنے تھیں۔
میں سکتے میں تھا۔ اور اپنے آپ سے پوچھ رہا تھا۔ کہ ۔نظریات، وطن ، مذہب اور حقوق کے نام پر اپنا سب کچھ قربان کرکے آج میرے سیاسی ناخدا مجھے وہ حق اور پہچان دینے کو تیار نہیں جسکے لئے میں ایک سپاہی کی طرح لڑتا رہا۔نہ ہی انکے دلفریب و پرجوش نعروں نے مجھے وہ بننے دیا جو میرے والدین کی خواہش تھی۔عمر بھر بہتر مستقبل کے سہانے خواب دکھا کر خود وہاں پہنچے جو انکا مطمحِ نظر تھا۔ اور مجھ جیسے کتنے نوجوانوں کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرکے گردشِ زمانہ کے حوالے کردیا۔ تو آج اپنے آپ کو کھوجتے ہوئے لا محالہ ذہن میں دردناک ماضی کے ساتھ ایک سوال اُٹھتا ہے کہ آخر میں کون ہوں؟؟؟؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے