’چوڑیاں چڑھا لو‘ ’چوڑیاں کڑیو‘ ’چوڑیاں لے لو چوڑیاں‘ ونگاں نی کڑیو‘ چوڑیاں فروخت کرنے والی عورتوں کی یہ آواز یقیناً آپ کی سماعت سے ٹکرائی ہو گی۔
چوڑیاں فروخت کرنے والی عورتوں کا گھر گھر جا کر چوڑیاں فروخت کرنا ایک قدیم پیشہ ہے۔
چوڑیاں فروخت کرنے والی یہ عورتیں اپنے سروں پر رنگ دار چوڑیوں کی ٹوکریاں رکھے گلیوں اور بازاروں میں آواز لگاتی تھیں۔
مختلف دیہاتوں اور شہروں کے آس پاس کے علاقوں میں دو یا تین خواتین کے گروپ کی صورت میں چوڑیاں فروخت کرتی تھیں جن کے پاس ہر ڈیزائن، ہر سائز کی مہنگی اور سستی چوڑیاں موجود ہوتی تھیں۔
گزشتہ چند سالوں سے یہ خواتین بہت کم نظر آتی ہیں۔
یہ خواتین کہاں سے آتی ہیں، روزانہ کہاں کہاں جا کر چوڑیاں فروخت کرتی ہیں اور اب ہمیں چوڑیاں فروخت کرنے والی خواتین کم کیوں نظر آتی ہیں؟
ان سوالات کے جوابات جاننے کے لیے سجاگ نے ان خواتین سے رابطہ کیا جو تاحال چوڑیاں فروخت کر رہی ہیں۔
ساہیوال کے نواحی گاؤں 132 نو ایل کی رہائشی چوڑی فروش خاتون سلمی بتاتی ہیں کہ وہ دیگر خواتین کی طرح چوڑیاں فروخت کرنے کے کام سے وابستہ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ 25 سال سے ساہیوال کے مختلف دیہاتوں میں جا کر چوڑیاں فروخت کر رہی ہیں۔ ان کے خاوند شہر میں چھوٹی سی دوکان پر چوڑیاں فروخت کرتے ہیں۔
چوڑی فروش سلمٰی بی بی کہتی ہیں کہ وہ ساہیوال شہر سے ہی چوڑیاں خریدتی ہیں۔ پہلے دیہاتوں میں چوڑیوں کی فروخت زیادہ ہوتی تھی تاہم اب تقریباً ہر گاؤں میں چوڑیاں فروخت کرنے والی دکان موجود ہے یا گھروں میں خواتین چوڑیاں فروخت کرنے لگ گئی ہیں۔
’پہلے میں ایک گاؤں میں 50 سے 60 درجن چوڑیاں فروخت کر لیتی تھی جس سے روزانہ سات سو سے اہک ہزار روپے منافع مل جاتا تھا تاہم اب ایسا نہیں ہے۔ آج کل منافع اڑھائی سو سے تین سو روپے رہ گیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اتنے منافع سے اب گزارا نہیں ہوتا تاہم اب وہ کم منافع پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔
’میرے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی شادی کر چکی ہوں۔ منافع نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے بچوں میں کوئی بھی چوڑیاں فروخت کرنے والے کام کی طرف نہیں آیا۔‘
فتح شیر کالونی کی رہائشی نسیم بتاتی ہیں کہ وہ 20 سال سے چوڑیاں فروخت کر رہی ہیں۔ 15 سال پہلے ان کے خاندان کی تقریباً 10 خواتین مختلف دیہاتوں میں جا کر گھر گھر چوڑیاں فروخت کرتی تھیں تاہم گزشتہ کچھ سالوں سے کئی خواتین یہ کام چھوڑ گئی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ آج سے 10 سال پہلے تک معقول آمدنی ہو جاتی تھی لیکن اب صرف اتنی آمدنی ہوتی ہے کہ روزمرہ کی ضروریات بڑی مشکل سے پوری ہوتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے خاوند 10 سال قبل وفات پا گئے تھے۔ ان کی تین بیٹیاں ہیں جو گھر میں ہی رہتی ہیں۔
’منافع کم ہوتے ہوئے بھی چوڑیاں فروخت کر کے بچوں کو پال رہی ہوں۔ اب میں دور دراز دیہاتوں میں نہیں جاتی بلکہ قریبی محلوں میں جا کر چوڑیاں فروخت کرتی ہوں۔‘
اوکاڑہ شہر کی رہائشی 70 سالہ ارشاد بی بی بتاتی ہیں کہ ان کی برادری کی تمام خواتین مختلف دیہاتوں میں جا کر چوڑیاں فروخت کرتی ہیں۔ اوکاڑہ میں تقریباً 30 خواتین اس پیشے سے منسلک ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ 50 سال سے چوڑیاں فروخت کر رہی ہیں۔ ان کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں جو شادی شدہ ہیں۔ بیٹے علیحدہ رہتے ہیں۔ ان کے خاوند بیمار اور ضعیف ہونے کی وجہ سے کوئی کام نہیں کر سکتے اس لیے وہ گھر پر ہی رہتے ہیں۔
’گھر کو چلانے کے لیے میں خود گھر گھر جا کر چوڑیاں فروخت کرتی ہوں۔ شادیوں کے موسم اور عید کے دنوں میں آمدنی میں 40 سے 50 فیصد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔‘
ارشاد بی بی کہتی ہیں کہ پہلے خواتین بڑے شوق سے چوڑیاں خریدتی اور پہنتی تھیں تاہم اب مہنگائی ہونے سے چوڑیاں بھی مہنگی ہو گئی ہیں جس سے چوڑیوں کی فروخت میں کمی واقع ہوئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب مختلف قسم کی چوڑیوں کی اقسام سے ہر ڈیزائن رکھنا مشکل ہو گیا ہے اس لیے زیادہ تر خواتین نے چوڑیوں کی دُکانوں کا رُخ کر لیا ہے جہاں انہیں ہر ڈیزائن کی چوڑیاں مل جاتی ہیں۔
’میں تقریباً چھ سال سے بیمار ہوں ٹانگوں میں جوڑوں کے درد کی وجہ سے زیادہ چل نہیں سکتی۔ اپنا مکان نہ ہونے کی وجہ سے کرایے کا مکان لیا ہوا ہے جس کا ماہانہ اڑھائی ہزار کرایہ ادا کرنا ہوتا ہے اس لیے اب قریبی آبادیوں میں جا کر چوڑیاں فروخت کر کے تین سو سے چار سو روپے روزانہ کما لیتی ہوں۔‘
ارشاد بی بی کا کہنا ہے کہ اگر وہ چوڑیاں فروخت کرنے نہ جائیں تو ان کے گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے لیکن اب یہ کام بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔