ڈرون حملے اور پاک امریکہ تعلقات

دسمبر 1979روس افغانستان میں اپنی افواج داخل کرتا ہے تو دنیا سکتے میں آ جاتی ہے ، امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ گرم ہو گئی، امریکہ کا پاکستان کے ساتھ رویہ ایک ہی رات میں ڈرامائی طور پر تبدیل ہو گیا۔ تین دن قبل اپنے ایک سینئر صحافی دوست سے جو افغانستان امور پر زیادہ لکھتے ہیں سے پوچھا کہ ملا منصور کی ڈرون حملے میں ہلاکت سے امن معاہدہ ایک مرتبہ پھر کھٹائی میں پڑ گیا۔ جب بھی طالبان امن معاہدے کی طرف آتے ہیں تو امریکہ طالبان کے لیڈروں کو ڈرون حملوں میں مار دیتا ہے۔بیت اللہ محسود سے لے کر حکیم اللہ محسود تک اور اب ملا منصور ۔ انہوں نے بتایا کہ جنگ کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں ، جنگ میں جو فاتح ہوتا ہے معاہدہ اس کی شرائط کے مطابق ہوتا ہے۔ امریکہ افغانستان جنگ میں بری طرح پٹ گیا۔ شکست کے زخم چاٹ رہا ہے ، طالبان قیادت امریکہ سے کہتی ہے کہ ہمیں بتاؤ آپ نے افغانستان سے کب نکلنا ہے۔ ہم معاہدہ کرنے کیلئے تیار ہیں ، امریکہ اپنی پگ اونچی رکھنے کی خاطر طالبان لیڈروں کو مارتا ہے ۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ افغانستان میں امن ہو۔

طالبان کون ہیں کہاں سے آئے ، کہانی 1979ء سے شروع ہوتی ہے ، روس کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوتی ہیں تو امریکہ روس کو نیچا دکھانے کی خاطر طالبان کی پشت پناہی کرتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کو تیل کی سپلائی مشرق وسطیٰ سے ہوتی ہے ، روس اگر افغانستان میں قدم جما لیتاتو وہ مشرق وسطیٰ میں تیل کے چشموں پر کنٹرول حاصل کر سکتا تھا۔ امریکہ کیلئے تیل کی سپلائی زندگی اور موت کا مسئلہ تھی۔ جنرل ضیاء الحق کے پاس اقتدار میں رہنے کا اخلاقی جواز نہیں تھا ، رچرڈ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ امریکہ کو فرنٹ لائن سٹیٹ کی ضرورت تھی اور ضیاء حکومت کو نہ صرف امریکی ڈالر اور مہارت کی ضرورت تھی بلکہ اسے اقتدار کیلئے اخلاقی جواز بھی چاہیے تھا۔ پاکستان اور امریکہ نے مل کر فیصلہ کیا کہ وہ افغان مجاہدین کی اخلاقی ، مالی اور عسکری امداد کرے گا۔ سی آئی اے ڈالر اور اسلحہ فراہم کرتا جبکہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی افرادی قوت، ٹریننگ اور جہاد کے فرائض پورے کرتی۔ افغانستان میں امن قائم نہ ہو سکا۔روس کا نکلنے کے بعد مستحکم افغانستان کیلئے کوششیں جاری تھیں کہ نائن الیون ہو گیا۔

امریکہ کی خفیہ ایجسیاں اور سلامتی کے ادارے اس المناک سانحے کو روکنے میں ناکام رہے البتہ انہوں نے فوری یہ پتہ لگا لیا کہ دہشتگردی میں القاعدہ ملوث ہے اور اس کا ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن ہے . القاعدہ کا ہیڈکوارٹر افغانستان تھا جسے طالبان کی سرپرستی حاصل تھی۔ طالبان کی حکومت کو دنیا کے صرف تین ممالک نے تسلیم کر رکھا تھا پاکستان سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ، آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل جنرل محمد امریکہ کے دورے پر تھے انہوں نے مشرف کو فون کر کے بتایا کہ امریکہ کے ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ رچرڈ آرمٹیج نے انہیں تباہ کیا ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم امریکہ کے ساتھ ہیں یا دہشتگردی کے ساتھ۔ اگر ہم نے دہشتگردوں کا انتخاب کیا تو اس صورت میں ہمیں بمباری کے بعد واپس پتھر کے زمانے میں جانے کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ اس کے بعد جو بھی ہوا وہ تاریخ ہے۔

ملا منصور بلوچستان کے علاقے میں بلوچستان میں مارا جاتا ہے اور ہماری خفیہ ایجنسیوں یا حکومت کو کوئی خبر نہیں ہوتی ۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کو ملا منصور کی ہلاکت کے 7گھنٹے بعد پتہ چلتا ہے۔ عسکری ادارے بھی خاموش رہتے ہیں ، وزیر داخلہ چوہدری نثار ہومیو پیتھک طرز کی ایک پریس کانفرنس کرتے ہیں ۔ اپنی پریس کانفرنس میں وہ کسی مولوی ولی محمد کی ہلاکت کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف اس طرح چپ سادھے بیٹھے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے منہ میں زبان نہیں۔ انہی کے منہ زبانی وہ ’’میسنا‘‘ بن گئے۔ امریکی صدر ویت نام کی سرزمین پر کھڑے ہو کر ملا منصور کی ہلاکت کی تصدیق کرتا ہے اور طالبان ہیبت اللہ اخونزادہ کو نیا امیر چن کر اس پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد سے لے کر آج تک ہماری خارجہ پالیسی کے خدوخال واضح نہیں ہو سکے . ہماری خارجہ پالیسی کبھی بھی آزاد نہیں رہی۔ ہماری معاشی پالیسی بھی کبھی آزاد نہیں رہی۔ ہمیں جغرافیائی آزادی تو ملی مگر حقیقی آزادی نہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی کو دو بابے چلا رہے ہیں یہ ناتواں کندھے اس قابل نہیں کہ وہ خارجہ پالیسی کا بار اٹھا سکیں۔ 45سال قبل بھٹو کے کہے ہوئے الفاظ یاد آ رہے ہیں کہ ہم چاروں طرف سے لوہے کی دیواروں میں گھرے ہوئے ہیں۔ افغانستان ، ایران اور ہندوستان ہم سے ناراض ہیں .ایک چین رہ گیا ہے جو ہمارا دوست ہے ۔ ملا منصور کی ہلاکت کے دن تہران میں افغانستان ، ایران اور ہندوستان کے لیڈر بیٹھ کر چاہ بہار بندرگاہ کے ساتھ ساتھ اربوں ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کر رہے تھے اور ہمارے وزیراعظم لندن میں اسی دن اپنے خاندان کے ساتھ برگر کھا رہے تھے۔

امریکہ اس خطے میں ہمیشہ سے دہرا کردار ادا کر رہا ہے ۔ امریکہ نے پاکستان کے مقابلے میں ہمیشہ ہندوستان سے بہتر سلوک کیا۔ وہ جنوبی ایشیاء کے بڑے ملک ، بڑی جمہوریت اور بڑی مارکیٹ کو ناراض کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہمارا جوہری نظام امریکہ کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ دوسری طرف پاکستانی عوام بھی فکرمند ہیں کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اس کے باوجود اپنی آزادی اور خودمختاری کا تحفظ کرنے سے قاصر ہے۔ امریکہ نے ایسی منصوبہ بندی کر رکھی ہے کہ اگر ایٹمی اثاثے دہشتگردوں کے ہاتھ لگنے کا خطرہ پیدا ہوا تو امریکی خصوصی ٹاسک فورس پاکستان کے ان ایٹمی اثاثوں کو اپنی تحویل میں لے لے گی۔ امریکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں غیرمعمولی تشویش میں مبتلا ہے ۔ امریکہ پوری کوشش کرتا رہا کہ پاکستان یہ صلاحیت حاصل نہ کر سکے اور اب ایٹمی اثاثوں کے خوف اور عالمی اہمیت کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ امریکہ یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اسلامی ایٹمی پاکستان بین الاقوامی سطح پر وہ وقار اور مقام حاصل کرے جو اس کا جائز حق ہے۔

پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان لکھتے ہیں قوم کی طاقت عوام اور اداروں میں ہوتی ہے ۔ کوئی ایسا ملک وقار حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی خارجہ امور میں کامیاب ہو سکتا ہے جو اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو۔ دنیا کے بڑے ممالک کے ساتھ ہمارے ڈائیلاگ کے عمل کا مستقبل اس وقت تک غیر یقینی رہے گا جب تک پاکستان اپنی داخلی مشکلات پر قابو نہیں پا لیتا اور دنیا میں اپنی اہمیت جنگوں اور عسکری مہم جوئی میں اتحادی کی حیثیت سے نہیں بلکہ امن اور خوشحالی کے فریق کے طور پر اجاگر نہیں کرتا۔ پاکستان کے باشعور اور پڑھے لکھے شہریوں کا فرض ہے کہ وہ امریکی مداخلت کے خلاف رائے عامہ کو بیدار کریں اور منظم کریں تا کہ ملک کی آزادی اور خودمختاری کے سلسلے میں خاموشی اور بے حسی کے بجائے مزاحمت کا جذبہ پیدا ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے