امام غزالی پر الزام

کیا امام غزالی (رح) مسلمانوں میں سائنسی طرز فکر کے خاتمے کے ذمہ دار تھے…؟؟؟

مجھے زندگی میں جن سوالوں نے بے حد پریشان کئیے رکھا ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ:

عظیم اسلامی تہذیب… شروع ہی سے جس کے ماننے والوں میں تنقیدی سوچ (Critical Thinking) اور سائنسی طرز فکر (Scientific Thought) کو شعوری طور پر پروان چڑھایا گیا تھا… اور جو سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا بھر کی امام تھی… کیونکر ان دونوں صفات سے محروم اور زوال کا شکار ہو گئی؟؟؟

اس سوال کے کے جواب کی تلاش کے دوران کئی طرح کے جوابات ملے جن میں سے دو جواب ایسے تھے جو کسی نہ کسی طور قابل قبول ہو سکتے تھے:

١) چنگیز خان اور اور پھر ہلاکو خان کے ہاتھوں سن ١٢٥٨ عیسوی میں بغداد کی تباہی’ مسلمان اہل علم کا قتل عام، علمی مراکز کی بربادی وغیرہ جس کے بعد مسلمان پھر کبھی نہ اٹھ سکے؛

٢) امام غزالی کے افکار کا مسلمانوں کی مجموعی فکر پر اثر جس کے نتیجے میں انہوں نے تنقید و تحقیق سے دوری اختیار کر لی؛
چند دن قبل ایک دوست نے ایک ویڈیو شیر کی جس میں مقرر نے امام غزالی (رح) کو کلی طور پر اس سب کا ذمہ دار ٹھہرایا… میں نے اپنی واجبی معلومات کی بنیاد پر جواب تو دے دیا کہ میں ایسا نہیں سمجھتا لیکن پھر سوچا کیوں نہ اس معاملے (Phenomenon) کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیا جائے… بس اسی سوچ کے تحت علم’ علم کی تقسیم’ امام غزالی کا مقام و کام دیکھتے دیکھتے کچھ چیزیں ایسی سامنے آئیں کہ حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی…
دوران مطالعہ کچھ نیۓ سوالات ذہن میں ابھرے مثلا:

١- کیا امام صاحب کی فکر کے اثرات اتنے گہرے اور وسیع تھے کہ انہوں نے پوری امت مسلمہ جو مشرق بعید سے لے کر جنوبی ایشیا’ مشرق وسطیٰ سے لے کر مغرب اقصیٰ تک اور پھر بحر ہند کے مسلم جزائر سے لے کر وسط ایشیا تک پھیلی ہوئی تھی… ہر طرف مسلمانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا؟

٢- کیا امام صاحب کے متصل زمانے میں اور پھر بعد کے مسلمانوں میں تحقیق اور ایجاد کا کوئی وجود رہا یا نہیں؟؟

٣- مسلمانوں کے زوال کا… کسی بھی طرح منگول حملے اور امام صاحب کی فکر کے ساتھ کوئی تعلق قائم (Connect) کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟؟؟

[pullquote]پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ:
[/pullquote]

اگرچہ امام صاحب کے فکری اثرات خوب پھیلے اور مسلمانوں کے مختلف طبقات کو انہوں نے متاثر بھی کیا لیکن وہ آج بھی کوئی عالمگیر صورت اختیار نہیں کر سکے… ایسا تو آج بھی ممکن نظر نہیں آتا جب کہ آج میڈیا اپنی مختلف شکلوں میں اور ذرایع مواصلات کی بہترین سہولتیں بھی موجود ہے… چہ جائیکہ ہم یہ تسلیم کر لیں کہ آج سے تقریبا ایک ہزار سال پہلے ایسا ہو گیا ہو گا… (تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اس موضوع پر اکیڈیمک ریسرچ ضرور ہونی چاہئے)…

[pullquote]دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ:
[/pullquote]

امام صاحب (١٠٥٨ یا ١١١١) کے بعد بھی تنقیدی سوچ (Critical Thinking) اور سائنسی طرز فکر (Scientific Thought) کا بھرپور چلن رہا اور امت نے بے شمار اہل علم پیدا کے جن کی ایک لمبی فہرست ہے… اختصار کی خاطر ان میں سے چند قابل ذکر نام’ دورانیہ حیات (Period of Life) اور ان کے علمی میدان کار پیش خدمت ہیں:

١- [pullquote]ابن الشاطر[/pullquote]: یہ سن ١٣٠٥ میں دمشق میں پیدا ہوئے اور ١٣:٧٥ میں وفات پائی… انہوں نے فلکیات (Astronomy) کے میدان میں شاندار کارنامے سرانجام دئیے یہاں تک کہ کوپر نیکس (Nicolaus Copernicus) کا کام ابن شاطر کے کام کی ہو بہو نقل نظر آتی ہے-

٢- [pullquote]ابن النفیس[/pullquote]: یہ سن ١٢١٠ میں پیدا ہوئے اور ١٢٨٨ میں وفات پائی… علم طب (Medical Sciences) کے میدان کے شہسوار تھے-

٣- [pullquote]نصیر الدین طوسی[/pullquote]: یہ ١٢٠١ سے ١٢٧٤ تک زندہ رہے… یہ نابغہ العصر شخص بیک وقت فلکیات (Astronomy)’ حیوانیات (Biology)’ کیمیا (Chemistry)’ ریاضی (Mathematics)’ فلسفہ (Philosophy) وغیرہ کے عظیم ماہر تھے…

٤- [pullquote]قطب الدین الشیرازی[/pullquote]: ان کا دورانیہ حیات ١٢٢٦ تا ١٣١١ تک کا ہے… یہ بھی نصیر الدین طوسی کی طرح کئی علوم کے ماہر تھے…
تو پھر امام صاحب پر یہ الزام کیوں لگا…؟؟؟

در اصل امام صاحب کے دور کا اسلامی معاشرہ… کیا عوام اور کیا خواص’ کیا طبقہ علماء اور کیا حکمران… بری طرح یونانی فلسفے سے متاثر تھے… سب جانتے ہیں کہ یونانی فلسفہ ‘وحی’ کے مقابلے میں ‘عقل’ کی برتری (Supremacy) کا علمبردار تھا… یہ فکری مغلوبیت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ عمومی طور پر مسلمان اس کے آگے ہتھیار ڈال چکے تھے اور دین اسلام کی تعبیر بھی اسی یونانی فلسفے کے تناظر (Framework) سے کی جانے لگی… ایسے میں امام غزالی نے ایک کتاب ‘تھافت الفلاسفہ’ (Incoherence of Philosophies) لکھی جس میں امام صاحب نے منطق (Logic) اور فلسفے (Philosophy) کے وہی طریقے ا(Instruments) ختیار کئیے جو یونانی فلاسفہ یا ان کے مسلمان متاثرین استمعال کرتے تھے… امام صاحب نے یونانی فسلفے میں بیس نکات کی نشاندھی کی اور ان پر تین پہلوؤں یعنی… عقلی یا غیر عقلی ہونے’ مفید یا مضر ہونے’ حق یا باطل ہونے… کے لحاظ سے بحث کرتے ہوئے ان سب نکات کی بنیاد تین نکات یعنی ا)مادہ قدیم یعنی ازلی و ابدی ہے؛ ٢) مادہ اور روح قدیم یعنی ازلی و ابدی ہے؛ اور ٣) عقل وحی پر غالب ہے ) کو ‘کفر’ قرار دیتے ہوئے دو ٹوک فرمایا کہ یہ فلسفہ ما بعد الطبیعات (Meta Physics) امور کی تشریح کے باب میں ناکام ہیں… اپنے نکتہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے امام صاحب نے بتایا کہ ‘اصل دین’ (Fundamental Principles) سے متصادم علوم درست نہیں ہو سکتے… بس اسی چیز کو لے کر کچھ لوگوں نے کسی وقت امام صاحب پر الزام لگا دیا کہ وہ تنقیدی سوچ (Critical Thinking) اور سائنسی طرز فکر (Scientific Thought) کے مخالف ہیں اور ان کی فکر کے زیر اثر مسلمان سائنسی میدان سے دور ہوئے…

حیرت انگیز طور پر اس نظریہ کو مشرق و مغرب کے مسلم و غیر مسلم اہل علم میں پذیرائی حاصل ہے…

[pullquote]یہ نظریہ کیوں مقبول ہوا…؟؟؟
[/pullquote]

شاید اس نظریہ کی پذیرائی میں اس تصور کو دخل ہو جس کے تحت غلط طور پر یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ منگولوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی نے امام صاحب کی فکر کے ساتھ ملکر مسلمانوں کو آئندہ کے لئے ناکارہ کر دیا اور وہ ہمیشہ کے لئے تاریکی میں ڈوب گئے… یہ تصور سراسر باطل محسوس ہوتا ہے… اس کی وجہ یہ ہے کہ منگول تو کچھ عرصہ بعد مسلمان ہو گئے تھے اور مسلمانوں میں ایک سے زیادہ سیاسی قوتیں بعد میں بھی پیدا ہوتی رہیں جس کی نمایاں ترین مثال ترک عثمانیوں (Ottomans) کی عظیم الشان حکومت ہے جو ایشیا’ یورپ اور افریقہ کے تین بر اعظموں میں پھیلی ہوئی تھی… کیا کوئی قوم مکمل علمی زوال ہوتے ہوئے بھی اتنا عروج حاصل کر سکتی ہے؟

دوسری وجہ جو ذہن میں آتی ہے وہ یورپ کی ترقی کا اور مسلمانوں کے زوال کا سفر ہے جو اتنا واضح ہے کہ اس کا انکار ممکن نہیں… میرا خیال ہے کہ یہاں بھی دانستہ یا نادانستہ تاریخ کو ٹھیک طریقے سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی… اور سائنسی ترقی کے عمل کو اس کے لازمی سیاسی اور معاشی (Political & Economic Phenomenon) سے الگ کر کے دیکھا گیا ہے…

حقائق کا درست تعیین تو کوئی تاریخ دان ہی کر سکتا ہے لیکن میری سوچی سمجھی راے یہی ہے کہ چودھویں صدی میں جب ترک ہر طرح سے یورپ پر حاوی ہوتے جا رہے تھے… اس دور کے تمام سمندری تجارتی راستے ان کے تصرف میں تھے لہذا دنیا کی اقتصادیات پر بھی ان کا ہی غلبہ تھا اور یورپ سیاسی اور معاشی طور پر ان کا زیر نگین تھا… اس صورتحال سے نکلنے کے لئے یورپ کے معاشروں میں ہر سطح پر غور و فکر جاری تھا اور وہ عثمانی ترکوں کے معاشی اور سیاسی غلبہ کو توڑنے کے لئے متبادل مواقع (Alternative Opportunities) کی تلاش میں تھے… ایک متبادل یہ بھی ہو سکتا تھا کہ بجاے موجود تجارتی راستوں (Trade Routes) اور تجارتی منڈیوں (Markets) کے نیۓ راستے اور منڈیاں ڈھونڈی جائیں… ان کوششوں کے نتیجے میں کولمبس نے امریکا دریافت کیا اور واسکو ڈے گاما نے افریقہ کے گرد چکر لگا کر ہندوستان و مشرق بعید کا متبادل راستہ ڈھونڈ لیا… ترکوں پر ان کا انحصار مکمل ختم نہیں تو کم ترین ضرور ہو گیا… یورپین قوموں کو براعظم امریکا سے سونا’ چاندی و دیگر دھاتوں کے بڑے بڑے ذخائر ہاتھ لگے تو ان قوموں کے پاس دولت کی فراوانی ہو گئی… اس حاصل شدہ دولت (Wealth) کو ملک میں سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے استمعال کیا گیا اور نئی ایجادیں سامنے آنے لگیں اور ایک وقت آیا کہ یورپ میں انفرادی محنت سے صنعتی پیداوار کا عمل (Industrial Revolution) شروع ہو گیا… پیداوار بڑھی تو زاید از ضرورت اشیاء کی کھپت کے لئے مختلف ممالک پر قبضہ شروع ہوا جہاں کی منڈیاں پھر منافع کا زریعہ بنیں… امریکا کے لال ہندوستانی اور افریقہ سے غلاموں کی کھیپیں بھی دستیاب ہو گئیں جو پھر یورپ کی صنعتی ترقی کا سبب بنیں… الغرض یورپ کو معاشی برتری (Economic Edge) حاصل ہوا… اس کے برعکس مسلمان معاشرے ابھی تک روایتی اسباب و ذرایع پر انحصار کر رہے تھے اور موجود وسائل اتنے نہ تھے کہ ہمیشہ (Forever) کام آ سکتے… دیگر معاملات زندگی کی طرح وسائل کی کمی نے سائنس و ٹیکنالوجی کو بھی بری طرح متاثر کیا اور علم کے چشمے سوچنے لگے… یہی تیسرے سوال کا جواب ہے… اس امر کی تحقیق ضروری ہے کہ مسلمانوں نے اس دور میں تزویراتی منصوبہ بندی (Strategic Thinking) کی طرف کیوں توجہ نہیں دی؟؟؟

لہذا…

میری نظر میں مسلمانوں کے زوال کی سب سے بڑی وجہ ان کے ہاں تزویراتی سوچ (Strategic Thinking) کا نہ ہونا یا کم ہونا تھا… اس کا نتیجہ تھا کہ چودھویں صدی میں مسلمان ممالک اور یورپی ممالک سائنسی تحقیق و اختراع کے میدان میں ہم پلہ تھے لیکن رفتہ رفتہ یورپ نے نیۓ امکانات تلاش کر لئے جبکہ مسلمان ایسا نہیں کر سکے… اور الزام خواہ مخواہ امام غزالی کو دے دیا گیا… حالانکہ حقیقت اس کے بلکل برعکس محسوس ہوتی ہے… جہاں تک میں نے غور کیا ہے امام غزالی تو یورپ کے بھی محسن ہیں… ان کی کتاب ‘المنقذ من الضلال’ (Rescuer from Misguidance) نے خود مغربی دنیا کو یونانی فلسفے کے چنگل سے نکلنے کا راستہ دکھایا تھا جبکہ ان کی ایک دوسری کتاب ‘تھافت الفلاسفہ’ (Incoherence of Philosophies) نے ان کے لئے منزل کی نشان دہی کی تھی…

نوٹ: اس موضوع پر یہ میرے اب تک کے مقدور بھر مطالعے کا حاصل ہے… میں سوچ رہا ہوں کہ اس موضوع پر تلاش کا عمل جاری رکھوں… دوستوں سے درخواست ہے کہ میرے لئے دعا بھی کریں اور اس موضوع پر ان کے علم میں جو کچھ بھی ہے وہ میرے ساتھ شیر کریں تاکہ میں اپنی معلومات کا جائزہ لے کر بہتر نکتہ نظر تک پہنچ سکوں…

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے