لاچار مملکت خداداد

اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر نعمت سے نوازا ہے ۔ گہرا سمندر ہو یا اونچے پہاڑ، ہرے بھرے کھیت ہوں یا میدانی علاقے، بارش ہو یا برفباری ، چاروں موسم اور تمام معدنی وسائل سمیت قدرت نے پاکستان کو تمام تر نعمتیں عطا کی ہیں ۔ لیکن اگر اس مملکت خداداد میں حکومتی کارکردگی کی بات کی جائے تو دہشتگردی ہو یا قدرتی آفات ، تھرپارکر میں ننھے بچوں کی اموات ہوں یا کراچی جیسے بڑے شہر میں ٹریفک کے مسائل، کشمیر سے کراچی تک ہر شخص صاحب سوال ہے کہ آخر حکومت کہاں ہے؟ کیوں ہے؟ اور اگر ہے تو کر کیا رہی ہے؟ ۔ زلزلے روزانہ کی بنیاد پر آرہے ہیں مگر حکومت کی شخصیت لرزہ سے عاری ہے ۔ زلزلہ ہو یا سیلاب ہر طرف عسکری ادارے یا این جی اوز نظر آتی ہیں ۔ حکومتی نمائندے صرف تصاویر یا میڈیا تک محدود رہتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اگر آٹا مہنگا ہوگیا ہے تو ڈبل روٹی کھاؤ، گٹر بھر گیا ہے تو باتھ روم کم جاؤ۔ ہم بات کرتے ہیں امریکہ اور یورپ کے طرز زندگی کی ،کوئی کہتا ہے ہم کراچی کو سنگاپور بنادیں گے تو کوئی لاہور کو پیرس بنانے کی باتیں کرتا ہے لیکن سی این آئی سی کو 1500روپے سے کم کر کے100روپے کرنے کو کوئی تیار نہیں، یہ کیسا دوغلا پن ہے؟

حکومت کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو افسوس ہوتا ہے کہ عوام کوسہولیات مہیا کرنے کیلئے میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین جیسے منصوبوں پر کھربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں ۔ ڈیمز کی تعمیر کا بہانہ بناکر لاکھوں روپے ہڑپ لئے گئے ۔ ایک رپورٹ میں واپڈا نے کہا ہے کہ دس سال میں چھوٹے ڈیمز کے دس منصوبوں کی کاغذی کارروائیوں پرلاکھوں روپے لگادیئے گئے لیکن کوئی ڈیم نہ بنا ۔ تھر پارکر میں آج بھی غذائی قلت سے معصوم بچوں کی اموات کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا جس سے حکومت بالکل لاپرواہ ہے ۔ کئی علاقوں میں پینے کو پانی ،کھانے کوغذا اورمریضوں کیلئے دواؤں کی قلت ہے، جعلی ادویات کے ذریعے انسان کوشفاءدینے کے بجائے موت کی نیند سلایا جارہا ہے لیکن حکومت نام کی چیز کہیں نظر نہیں آرہی ۔ شاید حکومت ملک کے سنگین مسائل سے ناواقف ہے یا ان معاملات پر توجہ نہ دینا محض ایک اتفاق ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت ان کھربوں روپے کے منصوبوں کی آڑ میں صرف اپنی تجوریاں بھر رہی ہو۔

انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں دھماکہ ہوا تو پوری دنیا کی اسٹاک مارکیٹیں کریش ہوگئیں ، اور سرمایہ کاروں کا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا ۔ پوری دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بھی شدید مندی کا رجحان دیکھا گیا ۔ عالمی مارکیٹوں میں مندی دیکھی گئی تو پاکستان بھی نقصان میں برابر کا شریک رہا لیکن جب عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں 13سال کی کم ترین سطح پر آگئیں تو اس کا پاکستان پر کوئی اثر نہیں پڑا ۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر پاکستان پوری دنیا کے ساتھ نقصان میں برابر کا حصہ دار ہے تو نفع کے وقت یہ حصے داری کہاں جاتی ہے ؟

آج ملک میں وہ فصلیں تک مہنگی ہیں جن کی کھیتی یہیں اگتی ہے ، اگر سستا کچھ ہے تو وہ ہے ایک عام انسان کی جان ۔ لیکن یہاں اس بات سے انکار قطعی ممکن نہیں ہے کہ ملک میں امن وامان کے قیام کیلئے پاک فوج نے جبکہ سندھ میں رینجرز نے اہم کردار ادا کیا ۔ شہر قائد میں لوگ سنسان جگہوں کا رخ کرنے سے صرف اس وجہ سے ڈرتے تھے کہ کوئی چورڈکیت انہیں لوٹ نہ لے، وہیں لوگوں نے گذشتہ عید پر70ارب روپے کی شاپنگ کر کے 10سالہ ریکارڈ توڑ دیا ۔ گوبل ٹیرارزم انڈیکس میں پاکستان کی گرتی ہوئی پوزیشن اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال میں واضح بہتری آئی ہے ۔ لیکن اب حکومت کو ایسی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے کہ پاکستان کا شمار D-8گروپ کے بجائے G-8گروپ میں ہو ۔ قدرت نے پاکستان کو بے پناہ تحفوں سے نوازا ہے ۔ ہمارے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی آج ہم دنیا میں ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے ہیں ۔ لیکن شاید چیزوں کی اہمیت کا اندازہ ان ہی کو ہوتا ہے جو ان چیزوں سے محروم ہوتے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے