سندھ میں موجودہ دلت بحث کا پس منظر

سندہ کی موجودہ دلت بحث جو کہ کچھ ہی دن پہلے تک کسی اورجوہر میں تھی، مگر اب اس کا رکھ صرف مذھب اور وہ بھی ھندو مذپب اور ثقافت رہ گئی، کچھ عرصا پہلے ھمیں جس بات کا خدشا تھا وہی ہی ہوئی۔۔۔!!

دلت والے کہتے تھے کہ ھماری تحریک پسے ہوئے اور غریب ہاری مزدورں کی تحریک ہے، مگر ھمارا کہنا تھا کہ اصل میں یہ تحریک تمام طبقات کی نمائندگی نہیں کرتی، دلت تمام طبقات کا نام نہیں، بلکہ صرف ذات کے نام ہر ہسے ہوئے طبقے کا نام ہے۔ اور انڈیا میں آج بھی دلت لفظ صرف اور صرف نچلی ڈات کے لیے استعمال ہوتا ہے، 1932 سے پہلے نچلی ذات والے اچھوت تھے اور اب بس وہ دلت ہوگئے ہیں، بس ٹیگ بدل گیا ہے باقی سلوک وہ ہئ روا رکھا گیا ہے۔ ھم یہ ہی کہتے رہیں کہ ان کا اصل ٹارگیٹ صر ف اور صرف سندھ کی ھندو برادری کے غریب قبائل ہی تھے، اور آج یہ بات ان لوگوں نے خود ثابت کردی ہے کہ ان کا نشانہ صرف اور ھندو یا دراوڑ غریب لوگ ہیں۔ اب انہوں نے ھندوازم کو اور اپر کلاس ھندو کو ٹارگیٹ کرنا شروع کریا ہے بغیر یہ سوچے کہ ان ہی ھندئوں میں بگت کنور رام، ھیموں کالانی، سوبھو گیانچندانی جیسی شخصیتیں بھی شامل ہیں جو اس اوچ نیچ سے بالاتر تھے۔ مقصد صرف اور صرف یہ ہی ہے کہ کچھ لوگوں سے نفرت دکھا کر عام انسان کے اندر خود کے لیے محبت پیدا کرنا۔ جو کہ اس دور میں ممکن نہیں، کیونکہ اب دور جہالت ختم ہو گیا ہے۔

سندہ میں اس وقت ایک مخصوص مہذہبی آئین ہے نہ کہ ھندو حکومت جو سیاسی اور آئینی طور پر غریب ہندو کا حق غصب کر رہے ہیں، اگر کچھ بزنس مین ھندو مخصوص نسشتوں پر آتے ہیں اور عام غریب ھندو نہیں آتا تو اس گناھ میں شریک تمام سیاسی جماعتیں ہیں، نہ کہ تمام ھندو۔ میں سمجھتا ہوں کہ ھمارے سیاسی نظام کو ٹھیک کرنے کی ضرورت کے نہ کی کسی مخصوص مذھب کے مخصوص لوگوں کو مورد الزام ٹہرانے کی۔

آج بھی وہ تمام طبقات کی بات کرتے کرتے پھر آکر رکتے صرف اور صرف کولہی بھیل اور میکھواڑ پر ہیں کہ وہ دلت ہیں، اور کوٹا ان کو دیا جائے، اور ھم کہیتے ہیں کہ ھم اس وقت انڈیا میں نہیں ہیں جہاں ھم خود کو دلت کے زمرے میں لے آئیں (کیونکہ انڈٰیا میں لفظ دلت کو آئینی حیثیت حاصل ہے) ھم پاکستان میں ہیں جہاں لفظ دلت کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں، صرف ایک گروھ کا شوشا چھوڑا ہوا ہے۔ ھم دراوڑ ہیں، مگر سندہ میں دلت نہیں۔ یہ بلاوجہ چند لوگ باقی لوگوں پر چپکانہ چاہتے ہیں۔

دلت والے شیڈیول کاسٹ کی بات کرتے ہیں وہ بھی صرف اور صرف ھندو کمیونٹی میں!!

اور ھم کہتے ہیں کہ اگر آپ واقعی عام غریب کسان کو حق دلانے میں سنجیدہ ہیں تو پھر آپ صرف ھندو برادری کی کچھ مخصوص ذاتوں کی بات نا کریں بلکہ تمام مذاھب اور گروہوں کے ان غریب اور پسماندہ خاندانوں کی کریں جو واقعی سماجی، سیاسی اور خاص طور پر معاشی طور پر غیر مستحکم ہیں، جس سے کوئی کسی کا حق نہیں کھا سکے گا ہر کیسی کو اس کے معاشی حیثیت کے مطابق موقعہ ملے گا۔ کیونکہ اس وقت تمام غریبوں کے مسائل ایک جیسے ہیں۔ باقی اگر مخصوص ذاتیں ہی شیڈیول کر کے پیش کی گئیں تو انارکی پھیلے گی،انہی ذاتوں کے وڈیرے، بزنس مین، افسران، عام انسان کو موقعا نہیں دیں گے، کیونکہ جاگیردارانہ نظام میں ہر عام انسان کا رول ماڈل جاگیردارہی ہوتا ہے، باہر سے کتنی ہی گالیاں دیتا ہو مگر موقعہ ملتے ہی اس کا رنگ ڈنگ جاگیردارانہ بن جاتا ہے، سندھ میں ایسی ھزاروں لاکھوں مثالیں موجود ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے