سافٹ پولیٹیکل کو (اندر کی کہانی )

میں خبر کے چکر میں تھا لیکن ان کا روائتی میٹھا لہجا اور خلوص سوال کرنے سے روک رہے تھے اس لیے خاموشی سے برابر والی چھوٹی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس دوران تین ملاقاتی آئے جنھیں مخصوص انداز میں ڈیل کر کے رخصت کرنے کے بعد مجھ سے مخاطب ہوئے
کیسے ہو ؟
کہاں تھے اتنے دن ؟
میں نے وہ ساری رام کہانی سنا دی کہ کیسے کان میں انفیکشن ہوا، ڈاکٹر نے کیا کہا اور کیسے دوبارہ سننے کے قابل ہو رہا ہوں ،کون سے دوا کھاتا ہوں وغیرہ وغیرہ

پندرہ دنوں میں سیکڑوں لوگوں نے مجھے غیر حاضری اور بیماری کا پوچھا ہوگا لیکن کسی نے اتنی باریکی اور دلچسپی نہیں دکھائی جو مجھے ان کی مزاج پرسی میں محسوس ہوئی .

اس دوران دو بار ٹیلیفون بجا لیکن انہوں نے نہیں سنا . تیسری بار مجھ سے دوبارہ مخاطب ہوئے اور اسی مخصوص لہجے میں بولے اور کچھ میں سمجھ گیا کہ ان کا مقصد مجھے اجازت دینا ہے .

اتنے میں میرے دو اور ساتھی کمرے داخل ہو کر ان کے بلکل سامنے بیٹھ گئے .
،میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی تو انہوں نے بھی سمجھ لیا کہ یہ بات کرنا چاہتا ہے۔

ان سے فورا پوچھا یہ پانامہ لیکس والا معاملہ کہاں تک جائے گا اور اس میں سے کیا نکلے گا؟

کہنے لگے تمھیں کیا لگتا ہے میں نے کہا سوائے وزیر اعظم کی رسوائی کے اور کچھ نہیں ہو سکتا .

انہوں نے پھر مسکرا کر صرف اتنا کہا دیکھتے ہیں .

تھوڑی خاموشی کے بعد میں نے پوچھا ایک بات بتائیں ،کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب یا مسلم لیگ ن مسلم لیگ ن اپنی مدت پوری کرے گی ؟

انہوں نے فورا دوسرے صحافیوں کی طرف دیکھا تو میں نے کہا کہ یہ اپنے دوست ہیں . خبر نہیں دیں گے ، ہم صرف اپنی معلومات کی حد تک آپ سے بات کررہے ہیں .

انہوں نے ایک لمبا سانس لیا اور کہا کہ نواز شریف مدت پوری کریں گے یا نواز لیگ دونوں باتیں الگ الگ ہیں .میری ذاتی رائے جو اپنے تجربے سے کہہ رہا ہوں کہ نواز لیگ کو مدت پوری کرنی چاہئے ،

بے صبری میں میرے منہ سے نکل گیا اور نواز شریف

تو کہنے لگے کہ میرا تجربہ یہ کہہ رہا ہے کہ پچیس فیصد امکان موجود ہے کہ میاں صاحب ٹھیک دو یا تین ماہ تک یہ کہہ کر وزارت عظمی چھوڑ دیں گے کہ میں بیمار ہوں ، اس لئے زیادہ پریشر نہیں لے سکتا اور اپنی جگہ مریم نواز شریف کو بٹھا دیں گے . اس دوران مریم نوازکو ممبر قومی اسمبلی منتخب کروانے کے مرحلے میں کوئی” اور” چند دن وزارت عظمی کی سیٹ کے مزے لے سکتا ہے . صحافیوں میں سے ایک نے پوچھا کہ وہ کون ہو گا ؟

انہوں نے کہا چوہدری نثار کی خواہش ہو سکتی ہے لیکن یہ قدم سے میاں برادران میں فاصلے پیدا کر سکتا ہے اور خاندان میں پھوٹ پڑنے کا امکان بھی ہے .

[pullquote]اس دوران انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ کی چار انگلیاں اپنے بائیں کندھے پر رکھ کر کہا کہ ان کی بھی کوشش ہو گی کہ میاں صاحب کو کمزور کیا جائے۔ اور وہ یہی طریقہ ہے .[/pullquote]

میں نے پھر پوچھا کہ "ان کو” ایسا کرنے کی کیا ضرورت ہے . اب ان کا کون سا کام نہیں ہو رہا یا ان کی مرضی کے خلاف کیا ہو رہا ہے

کہنے لگے یہ ٹھیک ہے لیکن ان کا مقصد میاں صاحب کو سیاسی طور پر مفلوج اور کمزور کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ اس سارے عمل اور فارمولےکو سافٹ پولیٹکل کو کا نام دیا جا رہا ہے یعنی مسلم لیگ کے اندر سافٹ پولیٹیکل کو جس کے چانس ابھی تک صرف پچیس فیصد ہیں اور ان میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

انہوں نے پھر دائیں ہاتھ کی انگلیاں بائیں کندھے پر رکھ کر کہا "ان کے” پاس ایک روایتی راستہ بھی ہے لیکن عالمی حالات اب ان کو اجازت نہیں دیتے اور نہ ہی وہ اب ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہیں .

میں نے ان سے پوچھا کہ پیپلز پہاڑی کیا کر رہی ہے۔ زرداری صاحب کہا ں ہیں ؟

[pullquote]کہنے لگے ، زرداری اب واپس نہیں آئے گا اس نے پارٹی بلاول کے حوالے کر دی ہےاور بلاول پچاس فیصد کام خود کر رہا ہے۔
[/pullquote]

میں کہا کہ بلاول خود کیسے فیصلے کر سکتا ہے اس کے آس پاس تو اب بھی عادی اور دیگر موجود ہوتے ہیں . ابھی کشمیر کے انتخابات کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم پر سارا پول کھل جائے گا ۔ وہ ہنسے اور کہنے لگے تمھارا اندازہ غلط ہے .پوچھو کیوں ؟

میں خاموش رہا جس پر خود ہی بول پڑے کہ

اب کشمیر کے ٹکٹوں کے لیے بولی اس لیے نہیں لگ سکتی کیوں کہ رجحان کسی اور طرف ہے اور پیپلز پارٹی کے پاس امیدوار کم ہیں۔

[pullquote]
میرے لیے سافٹ پولیٹیکل کو آصف زرداری کا واپس نہ آنا اور بلاول کا پارٹی ٹیک اور کرنا تینوں بڑی باتیں تھیں۔
[/pullquote]

ہم تینو ں اٹھے ان سے اجازت چاہی اور باہر نکل گئے ۔ باہر نکلتے ہی میرے ایک ساتھی نے کہا یہ تو لیڈ سٹوریاں ہیں . میں نے جواب دیا ہاں ہیں اگر ان خبروں کو ان کے نام کے ساتھ دیا جائے تو

اور نام ہم دے نہیں سکتے اعتماد کا رشتہ ختم ہو جائے گا اور صحافت میں ہم صرف اعتماد کے رشتے کماتے ہیں باقی صرف نمائشی چیزیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے